عابد حسین مقدسی

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

عابد حسین مقدسی

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

 

 *حضرت خدیجه (سلام الله علیها): محبت اور شفقت کا پیغام"* 

 

اسلام کی پہلی مسلمہ خاتون، حضرت خدیجه (سلام الله علیها)، ایمان، محبت، اور شفقت کی نمونہ ہیں۔ ان کی ذات میں انسانیت کی بلندیوں کا خوبصورت انعکاس تھا۔

حضرت خدیجه (سلام الله علیها) کی زندگی یہاں کچھ نکات بیان کرتے ہیں جو ان کی شخصیت اور زندگی کے اہم پہلو ہیں 

حضرت خدیجه (سلام الله علیها) پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ والہ وسلم کی پہلی بیوی تھیں اور اسلام کیلئے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ان کی فضیلتوں میں شامل ہیں:

 

1. **ایمان اور عقیدت**: حضرت خدیجه (سلام الله علیها) نے پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی پیغامبری کو پہلے ہی قبول کیا اور ان کی عظمت اور ایمان پر بہترین مثال قائم کی۔

 

2. **محبت اور وفاداری**: انہوں نے پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) کی محبت اور وفاداری کو اپنے پورے زندگی میں ظاہر کیا، جو ان کے ایمان اور عزم کو ظاہر کرتی ہے 

 

3. **سخاوت**: حضرت خدیجه (سلام الله علیها) ایمانی اور اخلاقی امور میں بہت سخی تھیں۔ انہوں نے اپنے مال و دولت کو اسلام کی خدمت میں انفاق کیا۔

 

4. **اعتماد اور حمایت**: انہوں نے پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله وسلم) کو ان کی مبارک زندگی کے دوران اعتماد اور حمایت کی۔

 

5. **مثالی زندگی**: حضرت خدیجه (سلام الله علیها) کی زندگی ایمان، شفقت، اور عظمت کی مثال ہے۔ ان کی سیرت طیبہ میں ان کے انفاق، محبت، اور عزم دکھائی دیتا ہے ۔ 

 

6. **تواضع **: حضرت خدیجه (سلام الله علیها) کی زندگی میں تواضع اور عفو کی بڑی قدر تھی۔ انہوں نے اپنی بلندیوں کے باوجود ہمیشہ دوسروں کے ساتھ احترام اور محبت کا اظہار کیا۔

 

7. **تحمل و صبر**: حضرت خدیجه (سلام الله علیها) نے اپنی زندگی میں مختلف مصائب اور مشکلات کا سامنا کیا، لیکن انہوں نے ہمیشہ تحمل اور صبر کا مظاہرہ کیا۔ ان کی زندگی سے یمیں معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح مشکلات کا سامنا کرنا چاہے اور صبر سے کام کرنا چاہئے۔

 

ان کی زندگی سے ہمیں بہت سی سبق سیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کی فضیلت ان کی زندگی کے ایمانداری، صداقت، محبت، اور عمل کی روشنی میں ہے

 *اللھم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجھم 🌷*

  • عابد حسین مقدسی

*السلام علیک یا بقیت اللہ* 

 

 *👈👈امام زمان عج کی غیبت کے زمانے میں ہماری زمہ داریاں* 

 

امام زمان عج کی غیبت کے دور میں ہم پر اہم زمہ داریاں اور فرائض عائد ہوتی ہیں۔ اس دور میں ہمیں امام زمان عج کے فرمانبرداری اور ان کی اطاعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کی طرف قرآنی آیات اور احادیث ہمیں راہنمائی کرتی ہیں۔

 

 *پہلا فرض: ایمان* 

 

امام زمان عج کی غیبت کے دور میں ہماری پہلی زمہ داری ایمان کی بنیاد مضبوط کرنا ہے۔ قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور یقین ان کی غیبت میں اہمیت بہت رکھتے ہیں۔ ہمیں ایمان کی تقویت کے لئے نماز، زکوٰة، روزہ، و غیرہ جیسے اسلامی عبادات کو ادا کرنا ہے۔

 

 *دوسرا فریضہ: اخلاقی اصلاح* 

 

امام زمان عج کی غیبت کے دور میں ہمیں اخلاقی اصلاح پر بھی زور دینا ہے۔ اسلامی اخلاق کے اصولوں کو عمل میں لانا، اور دوسروں کے ساتھ محبت، احسان، امانت داری، اور انصاف کے ساتھ پیش آنا ہے۔

 

 *تیسرا فرض: دین کی تعلیم و تربیت* 

 

امام زمان عج کی غیبت کے دور میں ہمیں اپنے آپ کو، اپنے اہل خانہ اور اپنے اطراف کو دینی تعلیم و تربیت سے مزیّن کرنا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو قرآن، سنت، اور اسلامی تعلیم دینی ہے تاکہ وہ امام زمان عج کے حوالے سے ایمانی اور عملی طور پر مضبوط اور مستحکم ہوں۔

 

 *چوتھا فرض: وحدت* 

 

امام زمان عج کی غیبت کے دور میں ہمیں آپس میں وحدت قائم کرنے پر بھی زور دینا ہے۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کی مدد اور حمایت کرنا اور ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کرنا ہے۔

 

 *پانچواں فرض: امام زمان عج کے منتظرین کی اہمیت* 

 

امام زمان عج کی غیبت کے دور میں ہمیں امام زمان عج کے منتظرین کی اہمیت کو بھی سمجھنا اور دوسروں کو ان کی آمد کے بارے میں آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ امام زمان عج کی ظھور کی تعجیل کے لئے ہمیں دعا، توسل، اور اس طرح کی بے شمار اعمال انجام دینا ہیں۔

 

اس طرح، امام زمان عج کی غیبت کے دور میں ہماری زمہ داریاں اور فرائض مختلف اور اہم اصولوں پر مبنی ہوتی ہیں جو اسلامی میں تعلیمات اور احادیث کے روشنی میں سمجھایا گیا ہے۔

لذا غیبت کے دور میں امام زمان عج کے منتظرین کی زندگی میں دینی اور اخلاقی اصولوں کی عملی تطبیق اور امام زمان عج کے انتظار میں امید اور حکمت عمل کرنا بھی شامل ہے۔

 

اس کے علاوہ دعا، توسل، قرآن کی تلاوت، کثرت سے عبادات، مخصوص اعمال، نافلہ، اور دوسری عبادات شامل ہیں۔ اخلاقی طور پر، صبر، شکر، محبت، رحم، امید، اور انصاف کو زندگی کا حصہ بنانا بھی اہم ہوتا ہے۔

 

اس کے علاوہ، امام زمان عج کے منتظرین کو ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کرنے، معاشرتی مسائل کا حل کرنے، اور دینی اور دنیاوی طریقوں سے معاشرتی ترقی کے لئے کام کرنے کی بھی زمہ داری ہوتی ہے۔

 

 *اللھم عجل لولیک الفرج 🤲* 

 *اللھم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجھم 🌷*

  • عابد حسین مقدسی

فراز‌هایی از دعای صباح امیرالمومنین

  • عابد حسین مقدسی

 لَئِن شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ وَلَئِن کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِی لَشَدِیدٌ ۞ اگر تم ہمارا شکر اد اکرو گے تو ہم نعمتوں میں اضافہ کردیں گے اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو ہمارا عذاب بھی بہت سخت ہے

۴۔ شکر نعمت اور کفران ِ نعمت کا نتیجہ : اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی عطا کردہ نعمتوں پر ہمارے تشکر کا محتاج نہیں اور اگر وہ شکر گزاری کا حکم دیتا ہے تو وہ بھی ہم پر ایک اور نعمت کا موجب ہے اور ایک اعلیٰ درجے کا تربیتی انداز ہے ۔

اہم بات یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ شکر کی حقیقت کیا ہے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ اس کا نعمت کی زیادتی سے کیا تعلق ہے او رکس طرح وہ خود ایک عامل ِ تربیت ہو سکتا ہے ۔

شکر کا مطلب یہ نہیں کہ صرف زبانی شکر کیا جائے یا”الحمد للہ “ وغیرہ کہا جائے بلکہ شکر کے تین مراحل ہیں :

پہلا مرحلہ یہ ہے کہ سنجیدگی سے غور کیا جائے کہ نعمت عطا کرنے والا کون ہے ۔یہ توجہ ، ایمان اور آگاہی شکر کا پہلا ستون ہے ۔

دوسرا مرحلہ اس سے بھی بالاتر ہے اور وہ عمل کا مرحلہ ہے یعنی عملی شکر یہ ہے یعنی ہم پوری طرح سے غور کریں کہ ہر نعمت ہمیں کس مقصد کے لئے دی گئی ہے اور اسے ہم اس کے اپنے مقام پر صرف کریں اور اگر ایسا نہ کیا توپھر ہم نے کفران نعمت کیا ۔ جیسا کہ بزرگوں نے فرمایاہے :

الشکر صرف العبد جمیع ما انعمہ اللہ تعالیٰ فیماخلق لاجلہ

شکر یہ ہے کہ بندہ ہر نعمت کو ا س کے مصرف ہی میں صرف کرے ۔

واقعاً خدا نے ہمیں آنکھیں دی ہیں ، اس نے ہمیں دیکھنے اور سننے کی نعمت کیوں بخشی ہے ۔ کیا اس کے علاوہ کوئی مقصد تھا کہ ہم جہاں میںا سکی عظمت کو دیکھیں ، راہ حیات کو پہچانیں اور ان وسائل کے ذریعے تکامل و ارتقاء کی طرف قدم بڑھائیں اور ، ادراک ، حق کریں ، حمایت ِ حق کریں ، اس کا د فاع کریں اور باطل کے خلاف جنگ کریں ۔ اگر خد اکی ان عظیم نعمتوں کو ہم نے ان کے راستے میں صر ف کیا تو ان کا عملی شکر ہے اور اگر یہ نعمتیں طغیان ، خود پرستی ، غرور، غفلت اور خدا سے دوری کا ذریعہ بن گئیں تو یہ عین کفران ہے ۔

امام صاد ق علیہ السلام فرماتے ہیں :

ادنی الشکر روٴیة النعمة من اللہ من غیر علة یتعلق القب بھا دون اللہ ، و الرضا بما اعطاہ ، وان لا تعصیہ بنعمة و تخالفہ بشیء من امرہ و نھیہ بسبب من نعمتہ

کمترین شکر یہ ہے کہ تو نعمت کو خدا کی طر ف سے سمجھے بغیر اس کے کہ تو اس نعمت میں مشغول رہے اور تو خد اکو بھول جائے اور ( شکر ) اس کی عطا پر راضی ہونا ہے او ر یہ کہ تو اس کی نعمت کو اس کی نافرمانی کا ذریعہ نہ بنائے اور اس کی نعمتوں سے استفادہ کرنے کے باوجود تو ا س کے اوامر و نواہی کو روندنہ ڈالے ۔4

اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ طاقت ، علم ، قوتِ فکر و نظر ، معاشرتی حیثیت ، مال و ثروت اور تند رستی و سلامتی میں سے ہر ایک کے شکر کا راستہ کیا ہے اور کفران کی راہ کونسی ہے ۔

تفسیر نور الثقلین میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ایک حدیث بھی اس تفسیر کے لئے ایک واضح دلیل ہے ۔ آپ (علیه السلام) نے فرمایا :

شکر نعمة اجتناب المحارم

شکرانِ نعمت گناہوں سے بچنے کا نام ہے ۔ 5

یہیں سے شکر اور نعمت میں اضافے کے درمیان تعلق واضح ہو جاتا ہے کیونکہ جب بھی انسانوں نے نعمت الٰہی کو بالکل مقاصد ِنعمت کے تحت صرف کیاتو انہوں نے عملی طور پر ثابت کردیا کہ وہ اہل ہیں اور یہ اہل بیت ہیں جن کے لئے  زیادہ سے زیادہ فیض اور فزون تر نعمت کا سبب بنی ۔

اصولی طور پر شکر دو طرح کا ہے :

۱۔ شکر تکوینی اور

۲۔ شکر ِ تشریعی

شکر تکوینی یہ ہے کہ ایک موجود خود کو حاصل نعمات کو اپنے رشد و نمو کے لئے استعمال کرے ۔ مثلاً باغباں دیکھتا ہے کہ باغ کے فلاں حصے میں درخت خوب پھل پھول رہے ہیں اور ان کی جتنی زیادہ خدمت کی جائے اتنے ہی زیادہ شگوفے پھوٹتے ہیں ۔ یہی امر سبب بنتا ہے کہ باغبان باغ کے درختوں کے اس حصے کی خدمت پر زیادہ تو جہ دیتا ہے اور اپنے کارکنوں کو ان کی نگہبانی کی نصیحت کرتا ہے کیونکہ درخت زبانِ حال سے پکار رہے ہوتے ہیں کہ اے باغبان ! ہم اس بات کے اہل ہیں کہ تو اپنی نعمت و احسان ہم پر زیادہ کرے ۔

وہ بھی اس پکار کا مثبت جواب دیتا ہے ۔

جہانِ شکر کی بھی یہی حالت ہے ۔فرق یہ ہے کہ درخت میں خود اختیاری نہیں ہے اور وہ فقط تکوینی قوانین کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہیں لیکن انسان اپنے ارادہ و اختیار کی طاقت سے اور تشریعی تعلیم و تربیت سے استفادہ کرتے ہوئے اس راہ پر استفادہ کرتے ہوئے اس راہ پر آگاہی سے قدم رکھ سکتے ہیں ۔

لہٰذا وہ شخص کہ جو طاقت کی نعمت کو ظلم و سر کشی کا وسیلہ بنایا ہے گویا زبان حال سے پکاررہا ہوتا ہے کہ خدا وند ! میں اس نعمت کے لائق نہیں اور جو شخص اپنی صلاحیت کو حق و عدالت کی راہ میں کام میں لاتا ہے وہ گویا زبانِ حال سے کہہ رہا ہوتا ہے کہ پر وردگار ا: میں اس لائق ہوں ، لہٰذا اضافہ فرما ۔

یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ جس وقت ہم شکر الہٰی بجالاتے ہیں ، چاہے وہ فکر و نظر سے ہو ، چاہے زبان سے اور چاہے عمل سے ، شکر کی یہ توانائی خود ہر مرحلے میں ایک نئی نعمت ہے اور اس طرح سے شکر کرنا ہمیں اس کی نئی نعمتوں کا مرہون منت قرار دیتا ہے اور یوں یہ ہرگز ہمارے بس میں نہیں کہ اس کے شکر کا حق ادا کر سکیں ۔ جیسا کہ امام سجاد علیہ السلام کی پندر مناجاتوں میں سے مناجات ِ شاکرین میں ہے :

کیف لی بتحصیل الشکر و شکری ایاک یفتقر الیٰ شکر ، فکلمات قلت لک الحمد و جب علی لذلک ان اقول لک الحمد

میں تیرے شکر کا حق کیسے اداکرسکتا ہوں کہ جب یہ شکر ایک اور شکر کا محتاج ہے اور جب میں ” لک الحمد“ کہتا ہوں تو مجھ پر لازم ہے کہ اس شکر گزاری کی توفیق پر کہوں:” لک الحمد“

لہٰذا انسان کے لئے مرحلہ شکر کا افضل ترین مقام یہ ہوسکتا ہے کہ اس کی نعمتوں پر شکر سے عاجزی کا اظہار کرے جیسا کہ ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ (علیه السلام) نے فرمایا:

فیمااوحی اللہ عز وجل الیٰ موسیٰ اشکرنی حق شکری فقال یا رب و کیف اشکرک حق شکرک و لیس من شکر اشکرک بہ الا و انت انعمت بہ علی قال یاموسی الان شکرتنی حین علمت ان ذٰلک منی ۔

خدا نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرا حق شکر ادا کرو تو انہوں نے عرض کیا : پر وردگارا میں تیرا حق ِ شکر کس طرح ادا کروں جب کہ میں جب بھی تیرا شکر بجا لاتا ہوں تو یہ توفیق بھی خود میرے لئے ایک نعمت ہوگی ۔

اللہ نے فرمایا : اب تونے میرا حق شکر ادا کیا جب کہ تونے جانا کہ حتی یہ توفیق بھی میری طرف سے ہے ۔ 6

بندہ ہمان نہ کہ زتقصیر خویش عذر بہ درگاہ خدا آورد

ورنہ سزا وار خد اوند یش کس نتواندکہ بجا آورد

اچھا بندہ وہی ہے کہ جو اپنی کوتاہیوں کا عذر بار گاہ الٰہی میں پیش کردے ورنہ اس کی خداندی کاحق کوئی بجا نہیں لاسکتا ہے ۔

 

 

 

 1_*تفسیر نمونہ*

2۔ تفسیر نو ر الثقلین جلد ۲ ص ۵۲۶۔

3۔ تفسیر نو ر الثقلین جلد ۲ ص ۵۲۶۔

4۔۔ تفسیر نو ر الثقلین جلد ۲ ص ۵۲۶۔

5۔سفینة البحار جلد ۱ ص ۷۱۰۔

6۔نور الثقلین جلد ۲ ص ۵۲۹۔

7۔ اصول کافی جلد ۴ ص ۸۰ ( باب الشکر ) ۔

  • عابد حسین مقدسی

وَهُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ۞

 

 اور وہ( پروردگار)تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی رہو اور وہ تمہارے اعمال کا دیکھنے والا ہے_

حقیقت میں یہ احساس کہ وہ ہر جگہ ہمارے ساتھ ہے،نہ صرف ہم کوعظمت وشکوہ بخشتا ہے بلکہ ہمارے نفس کواعتماد واطمینان عطاکرتاہے اور شجاعت وشہامت پیدا کرتاہے اوراس کے علاوہ اسے یعنی ہمارے نفس کوشدید ذمّہ داری کااحساس دلاتاہے ،کیونکہ وہ ہرجگہ حاضر وناظر اورنگراں ہے ۔اس کی قربت کایہ احساس ایک عظیم درسِ اصلاح ِ احوال ہے ،جی ہاں یہ اعقاد انسان کے لیے تقویٰ ، پاکیزگی اورکامیابی کابنیادی سبب ہے اوراس میں اُس کی (انسان کی )عظمت وبزرگی کی رمز بھی پنہاں ہے ، یہ ایک حقیقت ہے کہ وُہ ہمیشہ ہرجگہ ہمارے ساتھ ہے ۔ یہ کوئی کنایہ یا مجاز نہیں ہے بلکہ ایسی حقیقت ہے جودلپذیر ، عقل انگیز اوررُوح پروربھی ہے اورہمارے دلوں میں رعب پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں احساسِ ذمہ داری بھی دلاتی ہے ۔اسی لیے ایک حدیث میں پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے منقول ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے فرما:

انّ من افضل ایمان المرء ان یعلم ان اللہ تعالیٰ معہ حیث کان

انسان کے ایمان کاافضل ترین درجہ یہ ہے کہ وہ یہ سجھے کہ جہاں کہیں بھی وہ ہے خدا اس کے ساتھ ہے ( 2) ۔

ایک اورحدیث میں ہمیں ملتاہے ،کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سوال کیا: این اجدک یاربّ؟ پروردگار میں تجھے کہاں پاوں؟ (قال یاموسیٰ اذاقصدت الی فقد وصلت الیّ)فرمایا اے موسیٰ توجیسے ہی میرا اِرادہ کرے ( توسمجھ لے )کہ مجھ تک پہنچ گیا( 3) ۔

 

١۔تفسیرنمونہ

2۔ درالمنثور ،جلد ٦ ،صفحہ ١٧١۔

3۔رُوح البیان ،جلد ٩ ،صفحہ ٣٥١۔

  • عابد حسین مقدسی

یَا وَیْلَتَى لَیْتَنِی لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیلًا ۞ لَّقَدْ أَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِی وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا ۞ہائے افسوس-کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا ۔ اس نے تو ذکر کے آنے کے بعد مجھے گمراہ کردیا اور شیطان تو انسان کا رسوا کرنے والا ہے ہی ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی سیرت اور شخصیت کی تعمیری عوامل میں اس کے اپنے ارادے منشا اور خواہش کے بعد اور بھی بہت سے مختلف امور شامل ہوتے ہیں جن میں سب سے زیادہ اہم موٴثر عامل اس کا دوست اور ہم نشین ہوتا ہے کیونکہ انسان چار و ناچار اس کا اثر ضرور قبول کرتا ہے نیز اپنے اکثر و بیشتر افکار اور اخلاقی صفات اپنے دوستوں اورہم نشینوں سے حاصل کرتا ہے۔

خداوند متعال قرآن کریم فرماتا ہے کہ قیامت کے روز یہ ظالم لوگ بڑے افسوس کے ساتھ کہیں گے :”وای ہو مجھ پر کاش کہ میں فلاں گمراہ شخص کو اپنا دوست نہ بنا یا ہوتا( یَاوَیْلَتِی لَیْتَنِی لَمْ اٴَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیلًا)

ظاہر ہے کہ ”فلاں“ سے مراد وہ شخص ہے جو اسے گمراہی کی طرف کھینچ لایا تھا خواہ وہ شیطان تھا یا برا دوست اور گمراہ رشتہ دار وغیرہ...

در حقیقت یہ آیت اور اس سے پہلے والی آیت نفی اور اثبات کی دو مختلف حالتیں بیان کررہی ہیں ایک جگہ کہتا ہے اے کاش ! میں نے پیغمبر کا رستہ اختیار کیا ہوتا اور دوسری جگہ کہتا ہے : اے کاش ! میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنا یا ہوتا ۔

سلسلہ کلام جاری ہے آگے فرماتا ہے کہ وہ کہے گا : بیداری اور علم و آگہی میرے پاس آچکی تھی (سعادت اور خوش بختی نے میرا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا )لیکن اس بے ایمان دوست نے مجھے گمراہ کیا( لَقَدْ اٴَضَلَّنِی عَنْ الذِّکْرِ بَعْدَ إِذْ جَائَنِی )۔

اگر ایمان اور سعادت ابدی سے زیادہ دور ہوتا پھر تو افسوس کی کوئی ایسی بات ہی نہیں تھی لیکن میں اس سعادت ِ جاودانی کی سر حد کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا صرف ایک قدم کا فاصلہ باقی تھا کہ اس ہٹ دھرم متعصب اور دل کے اندھے شخص نے مجھے چشمہ ٴ آبِ حیات کے کنارے سے پیا سا پلٹا کر بد بختی اور گمراہی کے دلدل میں ہمیشہ کے لئے پھنسا دیا۔

مندر جہ بالا جملے میں مذکورہ لفظ ” ذکر“ کے وسیع معنی ہیں اور آسمانی کتابوں کی تمام آیات خدا وندی اس کے مفہوم میں شامل ہیں بلکہ وہ ہر چیز جو انسان کی بیداری اور آگہی کا سبب بنتی ہے اس میں آجاتی ہے ۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے :شیطان تو انسان کو ہمیشہ سے چھوڑتا رہا ہے (وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا)۔

کیونکہ وہ انسان کو کھینچ تان کر غلط راستے پرڈال دیتا ہے اور خطرناک مقام پر پہنچا کر اسے حیران و سر گرداں چھوڑ کر اپنی راہ لیتا ہے ۔

توجہ رہے کہ ”خذول“ مبالغہ کا صیغہ ہے جس کا معنیٰ ہے بار بار چھوڑ نے والا۔” خذلان“ کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کی امداد کے لئے عہد کرے لیکن نہایت ہی حساس لمحات میں اس کی امداد ست ہاتھ اٹھالے ۔

آیا اس آیت کا یہ آخری جملہ ” وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولاً“ قول خدا وندی ہے جو کہ تمام ظالموں اور گمراہوں کو تنبیہ کی صورت میں بیان ہوا ہے یا بروزِ قیامت ان حسرت زدہ لوگوں کے قول کا ایک حصہ ہے جو تتمّہ کے طور پر بیان ہوا ہے۔

اسلامی نقطہ نظر سے دوستی کے اثر کی اہمیت تو اس حد تک ہے کہ اسلامی روایات میں خداکے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام سے یوں منقول ہے :

لاتحکمواعلی رجل بشیء حتی تنظروا الیٰ من یصاحب ، فانما یعرف الرجل باشکالہ و اقرانہ و ینسب الیٰ اصحابہ و اخدانہ

جب تک کسی انسان کے دوستوں کو صحیح طرح نہ دیکھ لو تو اس وقت تک اس کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کرو کیونکہ انسان اپنے دوست و احباب اور یار و انصار سے پہچانا جاتا ہے (1) ۔

امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کا ایک فصیح و بلیغ ارشاد ہے :۔

و من اشتبہ علیکم امرہ ولم تعرفوا دینہ ، فانظروا الیٰ خلطائہ فان کانوا اھل دین اللہ فھو علی دین اللہ ، و ان کا نوا علی غیر اللہ فلاحظ لہ من دین اللہ۔

جب کسی شخص کی کیفیت اور حقیقت ِ حال کو نہ پہچان سکو اور اس کے دین کے متعلق بھی تمھیں معلوم نہ ہو سکے تو اس کے دوست و احباب کو دیکھ لیا کرو و اگر وہ ٓخدا کے دین کے پابند ہیں تو وہ بھی دین الہٰی کا پیروکار ہو گا اور اگر وہ اہل دین نہیں ہیں تو اس کا بھی دین میں کوئی حصہ نہیں ہے (2) ۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ بسا اوقات کسی شخص کی نیک بختی یا بد بختی کے لئے اسکے دوست کید وستی سب عوامل سے موثر عامل ہوتی ہے یا تو یہ دوستی اسے فنا کی سر حدوں تک لے جاتی ہے اوریا پھر اعزاز ا فتخار کی بلندیوں تک جا پہنچاتی ہے ۔

مذکورہ بالا آیت اور ان کی شانِ نزول سے صاف ظاہر ہے کہ انسان سعادت اور خوش بختی کی بلندیوں کو چھو سکتاہے لیکن ایک دوست کی طرف سے صرف ایک شیطانی وسوسہ کی طرح اسے ہلاکت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈال دیتا ہے کہ جس پر وہ حسرت کریگا اور بروز قیامت اپنے ہاتھوں کو اپنے دانتوں سے کاٹے گا اور ” یا ویلتی “ کی فریادیں بلندکرے گا ۔

چنانچہ حضرت محمد تقی جواد علیہ السلام فرماتے ہیں :۔

ایاک و مصاحبة الشریر فانہ کالسیف المسلول یحسن منظرہ ویقبح اثرہ

برے شخص کی ہم نشینی سے بچو کیونکہ وہ شمشیر بر ہنہ کی مانند ہوتا ہے جس کا ظاہر خوبصورت اور اثر بہت خطر ناک ہو تا ہے (3) ۔

 

پیامبر اکرم فرماتے ہیں :

اربع یمتن القلب :الذنب بالدنب ومجالسة الموتی، وقیل لہ یا رسول اللہ و ما الموتی؟ قال کل غنی مترف

چار چیزریں انسانی دل کو مردہ کردیتی ہیں ،گناہ کاتکرار (یہاں تک کہ فرمایا ) مردوں کے ساتھ ہم نشینی ،کسی نے پوچھا حضور!وہ مردے کون ہیں ؟فرمایا وہ دولتمند جو اپنی دولت کے نشے میں مست ہوتے ہیں(4) ۔

1 ۔ سفینة البحار جلد ۲ ص ۲۷ (مادہ”صدق“)۔

2۔ بحار الانوار جلد ۷۴ ص ۱۹۷۔

3 ۔ بحار الانوار جلد ۷۴ ص ۱۹۸۔

4 ۔ فصال صدوق ( منقول از بحار الانوار جلد ۷۴ ص ۱۹۵)۔

  • عابد حسین مقدسی

 بہتر زندگی کیلئے پانچ اُصول 

 

مولائے متقیان حضرت علیؑ بن ابیطالبؑ ارشاد فرماتے ہیں:

یاکُمَیْلُ! قُلِ الْحَقَّ عَلى کُلِّ حال وَ وادِّ الْمُتَّقینَ وَ اهْجُرِ الْفاسِقینَ وَ جانِبِ الْمُنافِقینَ وَ لا تُصاحِبِ الْخائِنینَ۔

 

🔷 اے کمیل! کسی بھی حال میں حق بولنے سے گریز نہ کرو، پرہیزگار لوگوں سے دوستی رکھو، فاسقوں اور گنہگاروں سے دُور رہو، منافقین کے مکر و فریب سے ڈرتے رہو اور خیانت کرنے والوں سےدوستی نہ کرو۔

 

 تــشــــــریــــــح

👈 پہلا اُصول: ساری زندگی حق کا ساتھ دو؛ خواہ مصیبت کے حالات ہوں یا راحتی کے، چاہے تخت نشین ہو یا خاک نشین زندگی کے تمام لمحات میں حق بات کہو اور حق بات سنو۔

 

👈 دوسرا اُصول: پرہیزگاروں کے ساتھ دوستی رکھو کیونکہ متقی و پرہیزگار لوگ اللہ کی رضا کے لئے تم سے دوستی رکھیں گے اور زندگی کے مشکل حالات میں کبھی تمہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ ان کی دوستی کا فائدہ یہ ہے کہ یہ تمہیں گناہ کرنے سے روکیں گے۔

 

👈 تیسرا اصول: گناہگاروں سے دوستی نہ کرو کیونکہ وہ تمہیں اور تمہارے خاندان کو گناہ سے آلودہ کر دیں گے اس لئے اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لئے گنہگاروں سے دوستی نہ کرو۔

 

👈 چوتھا اصول: حضرت علیؑ نے فاسقین سے دوری اختیار کرنے کا حکم دیا اور منافقین سے ہوشیار رہنے کے لئے کہا ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ منافقین ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں انہیں معاشرے سے جدا کرنا مشکل ہے لہذا ان کے مکر و فریب اور حیلے سے ہوشیار رہنا چاہیے۔

 

👈 پانچواں اصول: خیانت کرنے والا شخص دوستی اور رفاقت کے لائق نہیں ہوتا۔

 

🔘 اگر اس کلام میں دقّت کی جائے اور اسے عملی جامہ پہنایا جائے تو معاشرے میں بہت سی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔

 

📚 بحارالأنوار، ج 74، ص 413۔

  • عابد حسین مقدسی

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل جیسے نعمت سے نوازاھے. 

جس کے زریعے انسان اچھائی اور برائی کے درمیان پہچان کرسکتے ھے. اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں انسانوں  کو تعقل.(عقل سے کام لینے) تفکر اور تدبر سے کام لینے کی تاکید فرمائے ھےـ چنانچہ سورہ محمد آیہ نمبر 24 میں ارشاد ھوا ھے. أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ۞

  تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے ہیں یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں

” تدبر عربی میں دبر کے مادہ سے ہے جس کامعنی ہے ،کسِی چیزکے نتائج اورانجام پر غو ر کرنا ، یہ ” تفکر “کے برعکس ہے ، جس کا زیادہ تر اطلاق کسِی چیز کے اسباب اور وجوہات پر غور کرنے پر ہوتا ہے ،قرآن مجید میں ان دونوں کلموں کا استعمال نہایت ہی معنی خیز ہے ۔

نیزاس بات کوفراموش نہیں کرناچا ہیئے کہ قرآن مجید سے استفادہ کے لیے ایک قسم کی خود سازی کی ضرورت ہوتی ہے ،قرآن مجید خو د بھی اس قسم کی خود سازی کے لیے معاون ثابت ہوتا ہے ،کیونکہ اگردلوں پرہوا و ہوس ، تکبراور غرور ،ہٹ دھرمی اورتعصب کے تالے لگے ہُوئے ہوں تو یہ رکاوٹیں نورِ حق کوان میں داخل ہونے سے روک دیتی ہیں اور زیر ِ تفسیر آیات میں بھی اس تفسیر کی طرف اشارہ کیاگیا ہے ،

 کیا ہی زیبا فرمان ہے امیرالمومنین علی علیہ السلام کاجوایک خطبے کے ضمن میں متقین کے بارے میں ہے :

” اما اللیل فصا فون اقدامھم،تالین لاجزاء القراٰن،یرتلم نھاترتیلا،یحز نون بہ انفسھم ، ویستشیرون بہ دواء دائھم ، فاذ امرو ا باٰ یة فیھا تشویق رکنو ا الیھا طمعاً ، و تطلعت نفوسھما الیھا شوقاً ، وظنوا انھانصب اعینھموواذامرو باٰ یة فیھا تخویف اصغوا الیھا مسامع قلوبھم،و ظنوا ان زفیر جھنم وشھیقھا فی اصول اٰذ انھم “۔

وہ رات کے وقت قیام کرتے ہیں ،قرآن کی ٹھہرٹھہر کراورسوچ سمجھ کرتلاوت کرتے ہیں اپنے آپ کواس کے ذریعے پرسُوز کرتے ہیں ، اپنے درد کی دوا اسی میں تلاش کرتے ہیں ، جب کسی ایسی آیت پر پہنچتے ہیں جس میں شوق دلایاگیا ہے تووہ بڑے اشتیاق کے ساتھ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں، دل کی آنکھیں بڑے شوق کے ساتھ اورخُوب عذر سے اسے دیکھتی ہیں اورہمیشہ اسے اپنانصب العلین قرار دیتے ہیں اوراگر کسی آیت پر پہنچتے ہیں جس میں ڈرایا گیا ہے تو دل کے کان کھول کر اسے سنتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جلا ڈالنے والی دوزخ کی آگ کی چیخ و پکار اوراس کے شعلوں کی لپٹیوں کی آواز ان کے دل کے کانوں میں گونج رہی ہے

۔نہج البلاغہ خُطبہ ۱۹۳ ، معروف بہ خُطبہ ہمام ۔

تفسیر نمونہ سورہ محمد آیه 24

  • عابد حسین مقدسی

 

 

مباهلہ عظمت اہلبیت کی ایک زندہ سند

ترتیب و تنظیم عابد مقدسی

فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْکَاذِبِینَ ۞پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے جگڑا کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں ۔

” مباہلہ “ در اصل ” بھل“ کے مادہ سے ہے ، اس کا معنی ہے ”رہا کرنا “ اور کسی کی قید و بندکو ختم کردینا ۔ اسی بناء پر جب کسی جانور کو اس کے حال پر چھوڑ دیں اور اس کے پستان کسی تھیلی میں نہ باندھیں تاکہ اس کا نو زائیدہ بچہ آزادی سے اس کا دودھ پی سکے تو اسے ” باھل “ کہتے ہیں ۔ دعا میں ” ابتھال“ تضرع و زاری اور کام خدا کے سپرد کرنے کے معنی میں آتا ہے ۔

کبھی کبہار یہ لفظ ہلاکت ، لعنت اورخدا سے دوری کے معنی میں اس لئے استعمال ہوتا ہے کہ بندے کو اس کے حال پر چھوڑدینا منفی نتائج کا حامل ہوتا ہے ۔ یہ تو تھا ” مباہلہ “ کا مفہوم اصل لغت کے لحاظ سے لیکن اس مروج مفہوم کے لحاظ سے جو اوپر والی آیت میں مراد لیا گیا ہے یہ دو اشخاص کے درمیان ایک دوسرے پر نفرین کرنے کو کہتے ہیں اور وہ ببھی اس طرح کہ دو گروہ جو کسی اہم مذہبی مسئلے میں اختلافَ رائے رکھتے ہوں ، ایک جگہ جمع ہو جائیں ، بار گاہ الہٰی میں تضرع کریں اور اس سے دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا و ذلیل کرے اور اسے سزا و عذاب دے ۔

دعوت مباہلہ

مندرجہ بالا آیت میں خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کو ئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے ” مباہلہ کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچو ں ، عورتوں او ر نفسوں کو لے آئے اور تم بھی اپنے بچوںاور عورتوں اور نفسوں کو بلا وٴ پھر دعا کرو تاکہ خدا جھوٹوں کو رسوا کردے ۔

” مباہلہ “ کی یہ صورت شاید قبل از این عرب میں مروج نہ تھی اور ایک ایسا راستہ ہے جو سوفیصد پیغمبر اکرم کے ایمان اور دعوت کی صداقت کا پتہ دیتا ہے ۔

کیسے ممکن ہے کہ جو کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دے کہ آوٴ ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں ، اس سے درخواست کریں اور دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا کردے اور پھر یہ بھی کہے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ دیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے اور عذاب کرتا ہے ۔

یہ مسلم ہے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطر ناک معاملہ ہے کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ ہوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ ہو اتو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہوگا ۔

کیسے ممکن ہے کہ ایک عقلمند اور سمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمنان کئے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے ۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی طرف سے دعوتِ مباہلہ اپنے نتائج سے قطع نظر ، آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان قاطع کی دلیل بھی ہے ۔

اسلامی روایات میں ہے کہ “ مباہلہ “ کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مہلت چاہی تاکہ اس بارے میں سوچ بچار کرلیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کرلیں  ۔ بہر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے مابین یہ طے پایا کہ اگر محمد شو ر و غل ، مجمع اور داد و فریاد کے ساتھ ” مباہلہ“ کے لئے آئیں تو ڈرا نہ جائے اور مباہلہ کرلیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نہیں جبھی شور وغل کا سہارا لیا جائے اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جالینا چاہئیے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور اس صورت میں ان سے ”مباہلہ “ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطر ناک ہے ۔

طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباہلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین (علیه السلام) کو گود میںلئے حسن (علیه السلام) کا ہاتھ پکڑے اور علی (علیه السلام) و فاطمہ (علیه السلام) کو ہمراہ لئے آپہنچے ہیں اور انہیں فرمارہے ہیںکہ جب میں دعا کرو ، تم آمین کہنا ۔

عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتہائی پریشان ہوئے اور مباہلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لیے تیار ہو گئے اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ ہو گئے ۔

”فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ.......“

گذشتہ آیات میں حضرت عیسیٰ کی الوہیت کی نفی پر استدلال تھا ۔ اب اس آیت میں پیغمبر اکرم کوحکم دیا گیا ہے کہ اگر اس علم و دانش کے بعد بھی جو تمہارے پاس پہنچا ہے کچھ لوگ تم سے لڑیں جھگڑیں تو انہیں مباہلہ کی دعوت دو اور اس سے کہو کہ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم بھی اپنے بیٹوں کو بلاوٴ ، ہم اپنی عورتوں کو دعوت دیتے یں تم بھی اپنی عورتوں کو بلاوٴ اور ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں تم بھی اپنے نفسوں کو دعوت دو پھر ہم مباہلہ کریں گے اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں گے ۔

بغیر کہے یہ بات واضح ہے کہ مباہلہ سے مراد یہ نہیں کہ طرفین جمع ہو ں ، ایک دوسرے پر لعنت و نفرین کریں اور پھر منتشر ہو جائیں کیونکہ یہ عمل تو نتیجہ خیز نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ دعا اور نفرین عملی طور پر اپنا اثر ظاہر کرے اور جو جھوٹا ہو فوراً عذا ب میں مبتلا ہو جائے ۔

شیعہ اور سنی مفسرین اور محدثین نے تصریح کی ہے کہ ” اٰیہٴ مباہلہ ٴ اہل بیتِ رسول کی شان میں نازل ہوئی ہے اور رسول (صلی الله علیه و آله وسلم) جن افراد کو اپنے ہمراہ وعدہ گاہ کی طرف لے گئے تھے وہ صرف ان کے بیٹے امام حسن(علیه السلام) اور امام حسین (علیه السلام)، ان کی بیٹی فاطمہ زہرا (علیه السلام) اور حضرت علی علیہ السلام تھے ، اس بناء پر آیت میں ” ابنائنا “ سے مراد صرف امام حسن (علیه السلام) اور حسین (علیه السلام) ہیں ۔ ” نسائنا “ سے مراد جناب فاطمہ (علیه السلام) ہیں اور ” انفسنا “ سےمراد صرف حضرت علی علیہ السلام ہیں ۔۔

شیعہ مفسرین ، محدثین اور موٴرخین سب کے سب اس آیت کے ”اہل بیت “کی شان میں نازل ہونے پر متفق ہیں چنانچہ ” نور الثقلین“ میں اس سلسلے میں بہت سے روایات نقل کی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک کتاب ” عیون اخبار الرضا “ ہے ، اس میں ایک مجلسِ منا ظرہ کا حال بیان کیا گیا ہے ۔ جو مامون نے اپنے دربار میں منعقد کی تھی ۔ اس میں ہے کہ امام علی(علیه السلام) بن موسیٰ رضا (علیه السلام) نے فرمایا :۔خدا نے اپنے پاک بندوں کو آیت مباہلہ میں مشخص کردیا ہے اور اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے :

 (” فمن حاجّک فیہ من بعد ماجاء ک من العلم فقل “)

اس آیت کے نزول کے بعد پیغمبر علی (علیه السلام) ، فاطمہ (علیه السلام)، حسن (علیه السلام) اور حسین (علیه السلام) کو اپنے ساتھ مباہلہ کے لئے لے گئے اور یہ ایسے خصوصیت اور اعزاز ہے کہ جس میں کوئی شخص اہل بیت (علیه السلام) پر سبقت حاصل نہیں کرسکا اور یہ ایسی منزلت ہے جہاں تک کوئی شخصبھی نہیں پہنچ سکا او ریہ ایسا شرف ہے جو اس سے پہلے کو ئی حاصل نہیں کرسکا ۔ 

تفسیر ”برہان “، ” بحار الانوار“ اور تفسیر ” عیاشی “ میں بھی اس مضمون کی بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جو تمام اس امر کی حکایت کرتی ہیں کہ مندرجہ بالا آیت ” اہل بیت “ کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔

روز مباھلہ جب مسیحیوں نے دیکھا کہ پیغمبر اسلام (ص) امام حسین علیہ السلام کو اپنے گود میں لئے اور امام حسن علیہ السلام کے انگلی پکڑ کے اور حضرت علی علیه السلام اور حضرت فاطمه سلام الله علیها کے ساتھ آرھے ھیں تو اسقف مسیحی کہنے لگا میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا سے طلب کرے تو پہاڑ اپنے جگہ سے ہل جائے. اگر ان افراد نے نفرین کی تو کوئی بھی مسیحی زمین پر باقی نہیں ریگا لہذا مباہلہ سے منصرف هوجاو اور ان سے مصالحت کردو اور انکے بات مان لیں_

 اس آیہ مبارکہ میں چند نکات مھم کی طرف متوجہ فرمایا ھے

1-دعا مین کیفیت اور اھل دعا کی حالات مھم ھے مباھلہ میں پنجتن پاک تشریف لائے أَبْنَاءَنَا_وَنِسَاءَنَا_ وَأَنفُسَنَا 

2_اھل بیت پیامبر (س) مستجاب الدعوہ ہیں أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا وَأَنفُسَنَا 

3_حضرت علی علیه السلام نفس رسول (ص) معرفی هے (انفسنا) 

4_ امام حسن و امام حسین علیہمالسلام فرزندان رسول خدا (ص)  ھیں. (ابنائنا) 

اس کے علاوہ تفسیر کشاف کے موٴلف اہل سنت کے بزرگوں میں سے ہیں ۔ وہ اس آیت کے ذیل میں کہتے ہیں ۔

” یہ آیت اہل کساء کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے قوی ترین دلیل ہے “

قاضی نو ر اللہ شوستری اپنی کتاب ِ نفیس ” احقاق الحق “ کی جلد سوم طبع جدید صفحہ ۴۶ پر لکھتے ہیں :

” مفسرین اس سلسلے میں متفق ہیں کہ ” ابنائنا“ سے اس آیت میں امام حسن (علیه السلام) اور امام حسین (علیه السلام) مراد ہیں ، ” نسائنا“ سے ” حضرت فاطمہ (علیه السلام) مراد ہیں اور ’ ’ انفسنا“ میں حضرت علی (علیه السلام) کی طرف اشارہ کیا گیا ہے

اس کے بعد کتاب مذکور کے حاشیہ پر تقریباًساٹھ بزرگان اہل سنت کی فہرست دی گئی ہے جنہوں نے تصریح کی ہے کہ آیت مباہلہ اہل بیت ِ رسول کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ ان کے نام اور ان کی کتب کی خصوصیات صفحہ ۴۶ سے لے کر صفحہ ۷۶ تک تفصیل سے بیان کی گئی ہے ان شخصیتوں میں سے یہ زیادہ مشہور ہیں ۔

۱۔ مسلم بن حجاج نیشاپوری ۔ موٴلف صحیح مسلم جو نامور شخصیت ہیں اور ان کی حدیث کی کتاب اہل سنت کی چھ قابل اعتماد صحاح میں سے ہے ملاحظہ ہو مسلم ، ج۷، ص ۱۲۰۔ طبع مصر زیر اہتمام محمد علی صبیح۔

۲۔ احمد بن حنبل نے اپنی ” مسند“ میں لکھا ہے ملاحظہ ہو جلد۱، صفحہ ۱۸۵ طبع مصر ۔

۳۔ طبری نے اپنی مشہور تفسیر میں اسی آیت کے ضمن میں لکھا ہے دیکھئے جلد ۳، ص ۱۹۲، طبع میمنیہ۔ مصر ۔

۴۔ حاکم نے اپنی” مستدرک “ میں لکھا ہے ، دیکھئے جلد ۳ ، ص ۱۵مطبوعہ حیدر آباد دکن ۔

۵۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی “ ،کتاب ” دلائل النبوة“ ص ۲۹۷، مطبوعہحیدر آباد دکن ۔

۶۔ واحدی نیشاپوری “ ، کتاب ” اسباب النزول “ ،ص ۷۴،طبع ہندیہ ۔

۷۔ فخر رازی “ نے اپنے مشہور تفسیر کبیر میں لکھا ہے ، دیکھئے جلد ۸ ، ص ۸۵، طبع بہیہ ، مصر۔

۸۔ ابن ایثر ، ” جامع الاصول “ ، جلد ۹، ص ۴۷۰ ، طبع سنة المحدیہ ، مصر۔

۹۔ ابن جوزی ” تذکرة الخواص“ ، صفحہ ۱۷، طبع نجف ۔

۱۰۔ قاضی بیضاوی ، نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے ، ملاحظہ کریں جلد۲ م ص ۲۲ طبع مصطفیٰ محمد ، مصر ۔

۱۱۔ آلوسی نے تفسیر ” روح المعانی “ میں لکھا ہے دیکھئے جلد سوم، ص۱۶۷، مطبوعہ منیر یہ ۔ مصر۔

۱۲۔ معروف مفسر طنطاوی نے اپنی تفسیر ” الجواہر “ میں لکھا ہے، جلد ۲، ص۱۲۰۔ مطبوعہ مصطفیٰ البابی الحلبی، مصر۔

۱۳۔ زمخشری نے تفسیر ” کشاف“ میں لکھا ہے ، دیکھئے جلد۱ ، ص ۱۹۳، مطبوعہ مصطفیٰ محمد ، مصر۔

۱۴۔ حافظ احمد ابن حجر عسقلانی “، الاصابة“، جلد ۲ ، ص ۵۰۳، مطبوعہ مصطفی محمد ، مصر۔

۱۵۔ ابن صباغ، فصول المہمّہ“، ص۱۰۸، مطبوعہ نجف ۔

۱۶۔ علامہ قر طبی، ’ الجامع الاحکام القرآن“ ،جلد ۳، ص ۱۰۴، مطبعہ مصر ۱۹۳۶۔

” غایة المرام “ میں ” صحیح مسلم “ کے حوالے سے لکھا ہے :۔

منبع: تفسیر نمونه/ تفسیر نور 

abidmuqaddasi.blog.ir

 

  • عابد حسین مقدسی

عید غدیر روز اکمال دین اتمام نعمت مبارکباد

الْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دِینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکمْ نِعْمَتِی وَ رَضِیتُ لَکمُ الْإِسْلامَ دِیناً_

1_ غدیر روز اکمال دین،الْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینکم

2- غدیر روز اتمام نعمت الهی ، وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکمْ نِعْمَتِی

3-غدیر روز اسلام، که بعنوان دین و مذهب کامل، مورد رضایت الهی قرار پایا .وَ رَضِیتُ لَکمُ الْإِسْلامَ دِیناً،

4-غدیر روز یأس و مایوسی کافران،الْیوْمَ یئِسَ الَّذِینَ کفَرُوا

غدیر روز اکمال دین چونکہ پیغمبر اسلام،(ص) نے خداوند متعال کےفرمان سے امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) کو جانشین مقرر فرمایا، یَا أَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ ۖ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ .

غدیر روز اتمام نعمت، چونکہ پروردگار عالم نےقرآن میں بزرگ ترین نعمت کو نعمت امامت رهبری و معرّفی فرمایا، پیغمبر اسلام (ص) اپنے بعد جانشین مقرر فرمایا اور امت کو بے سرپرست نہیں چھوڑا،

جب آیت تبلیغ غدیر خم کے مقام پہ رسول خداؐ پر نازل ہوئی تو آپؐ نے امیرالمؤمنینؑ کو ولایت اور امامت کا عہدہ سونپ دیا اور آیت اکمال نازل ہوئی جس پر پیغمبرؐ نے فرمایا"الله اکبر علی اکمال الدین واتمام النعمة ورِضی الرب برسالتی وولایۃ علی بن ابیطالب من بعدی"

ترجمہ:"الله اکبر دین کے کامل ہونے اور نعمت کے مکمل ہونے اور میری رسالت پر اور میرے بعد علیؑ کی ولایت پر اللہ کی رضا اور پسندیدگی، پر"چنانچہ حضرت علی بن ابی طالبؑ کی ولایت کا مسئلۂ آخری فریضہ تھا جو نازل ہوا اور اس کے بعد آیت اکمال نازل هوا. 

 

 منبع : تفسیر نور، ج 2، ص234

طبری، بشارة المصطفی، ص211؛ حسنی استرآبادی، تأویل الایات الظاہرة، ص152؛ حسکانی، شواہد التنزیل، ج1، ص201؛ ابن طاؤوس، الطرائف، ج1، ص146

  • عابد حسین مقدسی