عابد حسین مقدسی

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

عابد حسین مقدسی

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

۸ مطلب در تیر ۱۳۹۸ ثبت شده است

  


«لَا تَدَعُوا الْعَمَلَ الصَّالِحَ وَ الِاجْتِهَادَ فِی الْعِبَادَةِ اتِّکَالًا عَلَى‏ حُبِ‏ آلِ‏ مُحَمَّدٍ ع وَ لَا تَدَعُوا حُبَّ آلِ مُحَمَّدٍ ع وَ التَّسْلِیمَ لِأَمْرِهِمُ اتِّکَالًا عَلَى الْعِبَادَةِ فَإِنَّهُ لَا یُقْبَلُ أَحَدُهُمَا دُونَ الْآخَرِ»

  عالم آل محمد، بادشاہ خراسان حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا :


   👈 *"محبت اہل بیت (ع ) کے سہارے کسی عمل صالح اور عبادت میں  کوشش کو چھوڑ نہ دینا اور نہ ہی عبادت کے بل بوتے پر محبت اہل بیت (ع ) کو ترک کرنا،  اس لیئے کہ عبادت و بندگی محبت اہل بیت (ع ) کے بغیر قبول نہیں اور محبت اہل بیت (ع ) عمل صالح و بندگی کے بغیر قبول نہیں...."*


 بحار الانوار، جلد 75، ص_347۔

  • عابد حسین مقدسی
  • عابد حسین مقدسی

بسمه تعالی:

 سلسلہ درس۔تزکیہ نفس۔۔

ھم نے بچھلے تحریر مین تزکیہ ،کے بارے میں کچھ مطالب بیان کیے تھے۔ اب ا یہاں پر نفس کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتے ھے۔۔

نفس کے معنی۔ نفس لغت میں روح کے  معنی میں استعمال ھویے ھے۔راغب اصفہانی لکھتے ھے نفس کا معنی روح کے ھے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے قرآن کریم کی اس آیت کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ھے۔وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ مَا فِی أَنْفُسِکُمْ فَاحْذَرُوهُ ۚ وَ اعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِیمٌ(235)۔[1] یاد رکھو کہ خدا تمہارے دل کی باتیں خوب جانتا ہے لہذا اس سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ وہ غفور بھی ہے اور حلیم واِردبار بھی

نفس قرآن کی نظر میں۔ آیةالله طبرسی  نے تحریرکیا ھےنفس کی تین معنی بیان کی هین1_نفس روح کے معنی میں استعمال ھوا ھے۔۔ جیسا که گذشته آیه مین بیان کیا.

2-۔نفس ذات کے معنی میں بھی استعمال ھوا ھے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھے وَ اتَّقُواْ یَوْمًا لَّا تجَزِى نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَیْا[2] اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے

3- نفس قلب اور باطن کے معنی میں بھی اسعتمال ھوے ھے جیسا کہ قران مجید میں خالق کائنات فرماتے ھے۔۔ وَ اذْکُر رَّبَّکَ فىِ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَ خِیفَةً وَ دُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الاَصَالِ وَ لَا تَکُن مِّنَ الْغَافِلِین[3]

اوراپنے رب کو تضرع اور خوف کے ساتھ دل ہی دل میں اور دھیمی آواز میں صبح و شام یاد کیا کریں اور غافل لوگوں میں سے نہ ہوں۔

نفس کے مراتب قرآن کی نظر میں۔[4]

نفس کے چند مراتب قرآن مجید میں بیان ھوے ھیں۔1-نفس امارہ :جو کہ انسان کو لذتوں پر ابھارتا ھے یعنی وہ انسان کو ھمیشہ اس بات پر ابھارتا ھے کہ اس کی خواھش پوری کرے نفس کا یہ مرحلہ جس کو قرآنی اصطلاح میں نفس امارہ کہا گیا ھےانسان کی سب سے بڑا دشمن اور خدا کے عظیم بندوں نے اس سے پناہ طلب کی ھے۔قران کریم میں ارشاد ھوا ھے وَ مَا أُبَرِّئُ نَفْسىِ  إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةُ  بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبىّ‏ إِنَّ رَبىّ غَفُورٌ رَّحِیم[5] دوسری ایت میں ارشاد ھے وَ أَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الهْوَى‏(40)فَإِنَّ الجْنَّةَ هِىَ الْمَأْوَى[6] جو اپنے پروردگار کے مقام و مرتبہ سے ڈرااور اس نے ھوا و ھوس سےاپنے نفس کو روکے رکھاتو بھشت اسکی منزل ھے

نفس کے اس مرتبہ کے سلسلہ میں امیرالمومنین ع فرماتے ھے۔ بندہ پر فرض ھے کہ وہ اپنے نفس کو سرکشی اور بے ادبی سے روکے رکھے اور اسے با ادب و مودب بنایےاور بندے کو چاھیےکہ وہ اسکی خوھشون کو پورا نہ کرے بلکہ اسے قابو میں رکھے اگر آزاد چھوڑدے گا تو وہ اسکی تباھی میں ایسا شریک ھوگا جو نفس کی خواہشون کو پورا کرنے میں اس کی مدد کرتا ھے گویا اس نے بربادی اور ھلاکت میں اپنے نفس کے ساتھ شریک ھوا۔[7] امام صادق ع فرماتے ھے نفس کو چھوڑنے سے پہلےاسے ضرر رسانی سے روک دو اور اسکی زبان کو لگام چڑھا دو اور اسے ناجائز خوہشوں کی زنجیر  سے آزاد کرنے کیے لیےاسی طرح کوشش کرو جس طرح تم اپنا روزگار تلاش کرنے میں کوشش کرتے ھو کونکہ تمھارے عمل نفس کی وجہ سے ھے۔

abidmuqaddasi.blog.ir

 

[1] البقره 235

[2] البقره 48

[3] اعراف 205

[4] آیینه حقوق ص 67

[5] سورہ یوسف 53

[6] نازعات40/41

[7] مستدرک الوسایل ج2صفحہ270

  • عابد حسین مقدسی

۱۳۵- وَ قَالَ امیر المؤمنین علی ( علیه السلام ) : مَنْ أُعْطِیَ أَرْبَعاً لَمْ یُحْرَمْ أَرْبَعاً مَنْ أُعْطِیَ الدُّعَاءَ لَمْ یُحْرَمِ الْإِجَابَةَ وَ مَنْ أُعْطِیَ التَّوْبَةَ لَمْ یُحْرَمِ الْقَبُولَ وَ مَنْ أُعْطِیَ الِاسْتِغْفَارَ لَمْ یُحْرَمِ الْمَغْفِرَةَ وَ مَنْ أُعْطِیَ الشُّکْرَ لَمْ یُحْرَمِ الزِّیَادَةَ .

قال الرضی : و تصدیق ذلک کتاب الله قال الله فی الدعاء ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ و قال فی الاستغفار وَ مَنْ یَعْمَلْ سُوءاً أَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللَّهَ یَجِدِ اللَّهَ غَفُوراً رَحِیماً و قال فی الشکر لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ و قال فی التوبة إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللَّهِ لِلَّذِینَ یَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهالَةٍ ثُمَّ یَتُوبُونَ مِنْ قَرِیبٍ فَأُولئِکَ یَتُوبُ اللَّهُ عَلَیْهِمْ وَ کانَ اللَّهُ عَلِیماً حَکِیماً .


 جس شخص کو چار چیزیں عطا ہوئی ہیں وہ چار چیزوں سے محروم نہیں رہتا ،جو دعا کرے وہ قبولیت سے محروم نہیں ہوتا۔ جسے توبہ کی توفیق ہو ،وہ مقبولیت سے ناامید نہیں ہوتا جسے استغفار نصیب ہو وہ مغفرت سے محروم نہیں ہوتا۔اور جو شکر کرے وہ اضافہ سے محروم نہیں ہوتا اور اس کی تصدیق قرآن مجید سے ہوتی ہے۔چنانچہ دعا کے متعلق ارشاد الہی ہے:تم مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔اور استغفار کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔جو شخص کوئی برا عمل کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت کی دعا مانگے تو وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا۔اور شکر کے بارے میں فرمایا ہے اگر تم شکر کرو گے تو میں تم پر (نعمت میں )اضافہ کروں گا۔اور توبہ کے لیے فرمایا ہے۔اللہ ان ہی لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو جہالت کی بناء پر کوئی بری حرکت نہ کر بیٹھیں پھر جلدی سے توبہ کر لیں تو خدا ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے۔

نہج البلاغہ۔حکمت۔135

  • عابد حسین مقدسی

۳۰- وَ قَالَ الامام علی علیه السلام  :  وَ سُئِلَ ( علیه السلام ) عَنِ الْإِیمَانِ فَقَالَ

الْإِیمَانُ عَلَی أَرْبَعِ دَعَائِمَ عَلَی الصَّبْرِ وَ الْیَقِینِ وَ الْعَدْلِ وَ الْجِهَادِ وَ الصَّبْرُ مِنْهَا عَلَی أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَی الشَّوْقِ وَ الشَّفَقِ وَ الزُّهْدِ وَ التَّرَقُّبِ فَمَنِ اشْتَاقَ إِلَی الْجَنَّةِ سَلَا عَنِ الشَّهَوَاتِ وَ مَنْ أَشْفَقَ مِنَ النَّارِ اجْتَنَبَ الْمُحَرَّمَاتِ وَ مَنْ زَهِدَ فِی الدُّنْیَا اسْتَهَانَ بِالْمُصِیبَاتِ وَ مَنِ ارْتَقَبَ الْمَوْتَ سَارَعَ إِلَی الْخَیْرَاتِ وَ الْیَقِینُ مِنْهَا عَلَی أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَی تَبْصِرَةِ الْفِطْنَةِ وَ تَأَوُّلِ الْحِکْمَةِ وَ مَوْعِظَةِ الْعِبْرَةِ وَ سُنَّةِ الْأَوَّلِینَ فَمَنْ تَبَصَّرَ فِی الْفِطْنَةِ تَبَیَّنَتْ لَهُ الْحِکْمَةُ وَ مَنْ تَبَیَّنَتْ لَهُ الْحِکْمَةُ عَرَفَ الْعِبْرَةَ وَ مَنْ عَرَفَ الْعِبْرَةَ فَکَأَنَّمَا کَانَ فِی الْأَوَّلِینَ وَ الْعَدْلُ مِنْهَا عَلَی أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَی غَائِصِ الْفَهْمِ وَ غَوْرِ الْعِلْمِ وَ زُهْرَةِ الْحُکْمِ وَ رَسَاخَةِ الْحِلْمِ فَمَنْ فَهِمَ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ وَ مَنْ عَلِمَ غَوْرَ الْعِلْمِ صَدَرَ عَنْ شَرَائِعِ الْحُکْمِ وَ مَنْ حَلُمَ لَمْ یُفَرِّطْ فِی أَمْرِهِ وَ عَاشَ فِی النَّاسِ حَمِیداً

وَ الْجِهَادُ مِنْهَا عَلَی أَرْبَعِ شُعَبٍ عَلَی الْأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الصِّدْقِ فِی الْمَوَاطِنِ وَ شَنَآنِ الْفَاسِقِینَ فَمَنْ أَمَرَ بِالْمَعْرُوفِ شَدَّ ظُهُورَ الْمُؤْمِنِینَ وَ مَنْ نَهَی عَنِ الْمُنْکَرِ أَرْغَمَ أُنُوفَ الْکَافِرِینَ وَ مَنْ صَدَقَ فِی الْمَوَاطِنِ قَضَی مَا عَلَیْهِ وَ مَنْ شَنِئَ الْفَاسِقِینَ وَ غَضِبَ لِلَّهِ غَضِبَ اللَّهُ لَهُ وَ أَرْضَاهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ 


30 حضرت علیہ السّلام سے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا۔ایمان چار ستونوں پر قائم ہے۔صبر ،یقین ،عدل اور جہاد۔ پھر صبر کی چار شاخیں ہیں۔اشتیاق، خوف ، دنیا سے بے اعتنائی اور انتظار۔اس لیے کہ جو جنت کا مشتاق ہو گا ،وہ خواہشوں کو بھلا دے گا اور جو دوزخ سے خوف کھائے گا وہ محرمات سے کنارہ کشی کرے گا اور جو دنیا سے بے اعتنائی اختیار کر ے گا ،وہ مصیبتوں کو سہل سمجھے گا اور جسے موت کا انتظار ہو گا ،وہ نیک کاموں میں جلدی کرے گا۔اور یقین کی بھی چار شاخیں ہیں۔روشن نگاہی ،حقیقت رسی ،عبرت اندوزی اور اگلوں کا طور طریقہ۔چنانچہ جو دانش و آگہی حاصل کرے گا اس کے سامنے علم و عمل کی راہیں واضح ہو جائیں گی۔اور جس کے لیے علم و عمل آشکار ہو جائے گا ،وہ عبرت سے آشنا ہو گا وہ ایسا ہے جیسے وہ پہلے لوگوں میں موجود رہا ہو اور عدل کی بھی چار شاخیں ہیں ،تہوں تک پہنچنے والی فکر اور علمی گہرائی اور فیصلہ کی خوبی اور عقل کی پائیداری۔چنانچہ جس نے غور و فکر کیا ،وہ علم کی گہرائیوں میں اترا ،وہ فیصلہ کے سر چشموں سے سیراب ہو کر پلٹا اور جس نے حلم و بردباری اختیار کی۔اس نے اپنے معاملات میں کوئی کمی نہیں کی اور لوگوں میں نیک نام رہ کر زندگی بسر کی اور جہاد کی بھی چار شاخیں ہیں۔امر بالمعروف ،نہی عن المنکر ،تمام موقعوں پر راست گفتاری اور بد کرداروں سے نفرت۔چنانچہ جس نے امر بالمعروف کیا ،اس نے مومنین کی پشت مضبوط کی ،اور جس نے نہی عن المنکر کیا اس نے کافروں کو ذلیل کیا اور جس نے تمام موقعوں پر سچ بولا ،اس نے اپنا فرض ادا کر دیا اور جس نے فاسقوں کو براسمجھا اور اللہ کے لیے غضبناک ہوا اللہ بھی اس کے لیے دوسروں پر غضبناک ہو گا اور قیامت کے دن اس کی خوشی کا سامان کرے گا۔

نہج البلاغہ۔حکمت ۔30

وقال الامام علیعلیه السلام
عَلَامَةُ الْإِیمَانِ أَنْ تُؤْثِرَ الصِّدْقَ حَیْثُ یَضُرُّکَ عَلَى الْکَذِبِ حَیْثُ یَنْفَعُکَ وَ أَنْ لَا یَکُونَ فِی حَدِیثِکَ فَضْلٌ عَنْ عِلْمِکَ وَ أَنْ تَتَّقِیَ اللَّهَ فِی حَدِیثِ ۔۔غَیْرِکَ؛
458ایمان کی علامت یہ ہے کہ جہاں تمہارے لیے سچائی باعث نقصان ہو، اسے جھو ٹ پر ترجیح دو،خواہ وہ تمہارے فائدہ کا باعث ہو رہا ہو، اور تمہاری باتیں، تمہارے عمل سے زیادہ نہ ہوں اور دوسروں کے متعلق بات کرنے میں اللہ کا خوف کرتے رہو۔



  • عابد حسین مقدسی


4 تسلیم۴- وَ قَالَ ( علیه السلام ) : نِعْمَ الْقَرِینُ الرِّضَی الْعِلْمُ وِرَاثَةٌ کَرِیمَةٌ وَ الْآدَابُ حُلَلٌ مُجَدَّدَةٌ وَ الْفِکْرُ مِرْآةٌ صَافِیَةٌ .

 و رضا بہترین مصاحب اور علم شریف ترین میراث ہے اور علمی و عملی اوصاف خلعت ہیں اور فکر صاف شفاف آئینہ ہے۔

نہج البلاغہ۔ حکمت۔4

  • عابد حسین مقدسی

این متن دومین مطلب آزمایشی من است که به زودی آن را حذف خواهم کرد.

زکات علم، نشر آن است. هر وبلاگ می تواند پایگاهی برای نشر علم و دانش باشد. بهره برداری علمی از وبلاگ ها نقش بسزایی در تولید محتوای مفید فارسی در اینترنت خواهد داشت. انتشار جزوات و متون درسی، یافته های تحقیقی و مقالات علمی از جمله کاربردهای علمی قابل تصور برای ,بلاگ ها است.

همچنین وبلاگ نویسی یکی از موثرترین شیوه های نوین اطلاع رسانی است و در جهان کم نیستند وبلاگ هایی که با رسانه های رسمی خبری رقابت می کنند. در بعد کسب و کار نیز، روز به روز بر تعداد شرکت هایی که اطلاع رسانی محصولات، خدمات و رویدادهای خود را از طریق بلاگ انجام می دهند افزوده می شود.

  • عابد حسین مقدسی

این متن اولین مطلب آزمایشی من است که به زودی آن را حذف خواهم کرد.

مرد خردمند هنر پیشه را، عمر دو بایست در این روزگار، تا به یکی تجربه اندوختن، با دگری تجربه بردن به کار!

اگر همه ما تجربیات مفید خود را در اختیار دیگران قرار دهیم همه خواهند توانست با انتخاب ها و تصمیم های درست تر، استفاده بهتری از وقت و عمر خود داشته باشند.

همچنین گاهی هدف از نوشتن ترویج نظرات و دیدگاه های شخصی نویسنده یا ابراز احساسات و عواطف اوست. برخی هم انتشار نظرات خود را فرصتی برای نقد و ارزیابی آن می دانند. البته بدیهی است کسانی که دیدگاه های خود را در قالب هنر بیان می کنند، تاثیر بیشتری بر محیط پیرامون خود می گذارند.

  • عابد حسین مقدسی