عابد حسین مقدسی

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

عابد حسین مقدسی

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

۶ مطلب در ارديبهشت ۱۳۹۹ ثبت شده است

اخلاقی خصوصیات:

امام حسن (ع) کے اخلاقی شخصیت ہر جہت سے کامل تھی۔ آپ کے وجود مقدس میں انسانیت کی اعلی ترین نشانیاں جلوہ گر تھیں۔

جلال الدین سیوطی اپنی تاریخ کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ:

حسن ابن علی (ع) اخلاقی امتیازات اور بے پناہ انسانی فضائل کے حامل تھے۔ ایک بزرگ ، باوقار ، بردبار، متین، سخی، نیز لوگوں کی محبتوں کا مرکز تھے۔  

ان کے درخشاں اور غیر معمولی فضائل میں سے ایک قطرہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے:

پرہیزگاری:

آپ خداوند کی طرف سے مخصوص توجہ کے حامل تھے اور اس توجہ کے آثار کبھی وضو کے وقت آپ کے چہرہ پر لوگ دیکھتے تھے، جب آپ وضو کرتے تو اس وقت آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا اور آپ کاپنے لگتے تھے۔  جب لوگ سبب پوچھتے تو فرماتے تھے:

حقٌ علی کل من وقف بین یدی رب العرش ان یصفر لونہ و ترتعد مفاصلہ،

جو شخص خدا کے سامنے کھڑا ہو، اس کے لیے اس کے علاوہ اور کچھ مناسب نہیں ہے۔

مناقب ابن شہر آشوب، ج 4 ص 14

امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:

امام حسن (ع) اپنے زمانے کے عابد ترین اور زاہد ترین شخص تھے۔ جب موت اور قیامت کو یاد فرماتے تو رویا کرتے تھے. 

بحار الانوار ج 43 ص 331

امام حسن (ع) اپنی زندگی میں 25 بار پیادہ اور کبھی پا برہنہ زیارت خانہ خدا کو تشریف لے گئے تا کہ خدا کی بارگاہ میں زیادہ سے زیادہ ادب و خشوع پیش کر سکیں اور زیادہ سے زیادہ اجر لے سکیں۔

بحار الانوار ج 43 ص 331

سخاوت:

امام حسن (ع) کی سخاوت اور عطا کے سلسلہ میں اتنا ہی بیان کافی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں دو بار اپنے تمام اموال کو خدا کی راہ میں دیا اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ آدھا راہ خدا میں دیا اور آدھا اپنے پاس رکھا ۔  

تاریخ یعقوبی، ج 2 ص 215
ایک دن آپ نے خانہ خدا میں ایک شخص کو خدا سے گفتگو کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا کہ خداوندا: مجھے دس ہزار درہم دے دے۔ امام (ع) اسی وقت گھر گئے اور وہاں سے اس شخص کو دس ہزار درہم بھیج دیئے۔

کشف الغمہ، ج 1 ص 558

ایک دن آپ کی ایک کنیز نے ایک خوبصورت گلدستہ آپ کو ہدیہ کیا تو، آپ (ع) نے اس کے بدلے اس کنیز کو آزاد کر دیا۔ جب لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ خداوند نے ہماری ایسی ہی تربیت کی ہے پھر آپ (ع) نے یہ آیت پڑھی:

و اذاحُیّیتم بتحیّة، فحَیّوا باحسن منھا،

جب تم کو کوئی ہدیہ دے تو اس سے بہتر اس کا جواب دو۔  

بحار الانوار ج 43 ص 342

بردباری:

ایک شخص شام سے آیا ہوا تھا اوراس نے امام (ع) کو برا بھلا کہا۔ امام (ع) نے سکوت اختیار کیا ، پھر آپ نے اس کو مسکرا کر نہایت شیرین انداز میں سلام کیا اور کہا:

اے محترم انسان میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ تم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر تم مجھ سے میری رضا مندی کے طلبگار ہو یا کوئی چیز چاہیے تو میں تم کو دونگا اور ضرورت کے وقت تمہاری راہنمائی کروں گا۔ اگر تمہارے اوپر قرض ہے تو، میں اس قرض کو ادا کروں گا۔ اگر تم بھوکے ہو تو میں تم کو سیر کر دوں گا اور اگر میرے پاس آؤ گے تو زیادہ آرام محسوس کرو گے۔

وہ شخص شرمسار ہوا اور رونے لگا اور اس نے عرض کی:

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔  آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین شخص تھے لیکن اب آپ میری نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔

بحار الانوار ج 43 ص 

شرح ابن ابی الحدید ج 16 ص 51

مؤسسه ولی عصر

  • عابد حسین مقدسی

دروس ماه مبارک رمضان موضوع :تزکیه نفس اصلاح کی ابتدا اپنی ذات سے کرنی چاہیے۔

امیر المومنین ع کا ارشاد گرامی ہے که مَن نَصَبَ نَفسَهُ لِلنّاسِ اِماماً فَلیَبدَأ بِتَعلِیمِ نَفسِهِ قَبلَ تَعلیمِ غَیرِه؛‌[1] بالکل واضح ہے که اصلاح کی ابتدا اپنی ذات سے کرنی چاہیے-همین خود اپنے اوپر پهلے توجه دینا چاہیے- تزکیه نفس اور خود سازی کا پهلا اور اهم ترین قدم یه ہے که انسان اپنے آپ کو؛اپنے اخلاق کو اور اپنے کردار کو تنقیدی نگاه سے دیکھے- اپنے عیوب کو دیکھے-ان پر غور کرے اور انهین دور کرنےکی کوشش کرے یه کام هم خود هی کرسکتے بے- اور یه زمداری خود هماری کندون پر ہے-همین اپنی حفاظت کرنی چاہیے،اپنی لغزشون کو کم کرنی چاہیے اور اس کام مین خدا سے مدد مانگنا چاہیے- اپنی بد اخلاقیون اور بری صفات کا پته لگایے یه مجاهدت کا دشوار حصه  ہے- خود  پسندی و خود ستایی مین مبتلا نه هو اپنے عیوب کو دیکهے اور انکی فهرست اپنی سامنے رکهے کوشش کرے که اس فهرست میں مسلسل کمی آیے اگر حسد هےاپنے اندر حسد کو ختم کرےاگر ضدی ہے تو ضد کو ختم کری اگر کاهل اور سست ہے تو کاهلی اور سستی کو ختم کرے اگر دوسرن کا برا چاهتی ہےاور بدخواه ہےتو بدخواهی کو دور کرے اگر اپنے اندر وعده خلافی پایےجاتے هو تو وعده خلافی کو دور کرے اور اگر عهد شکنی پایے جاتے هو تو عهد شکنی اور بی وفایی کو ختم کرے اس سلسله مین مجاهدت کرنے والون کی خداوند عالم مدد کریگا- خداوند عالم کمال تک پهنچنے کی لیےجاری مجاهدت مین انسان کو بی یار وممدگار نهین چهوڑتا اس مجاهدت  کا فایدهے سب سے پهلے خود مجاهدت کرنےوالے کو پهنچتا هےاس کی علاوه نفس سے جهاد نفس کی اصلاح اور راه خدا مین اپنے  اندر مجاهدت کا فایده جو جهاد اکبر هین؛ خود اس فرد تک محدود نهین رهتا بلکه معاشره اور ملک و قوم کی حالات هر جگه اس کی اثرات مرتب هوتے هے مختصر یه که اس طریقے سے انسان کی دنیا و آخرت دونون سنور جاتی ہے-ایک حدیث مین امام زین العابدین سے منقول ہے که اپ نی فرمایا [2]کان علی بن الحسین ع یقول: ابن آدم لا تزال بخیر ما کان لک واعظ من نفسک و ما کانت المحاسبة لها من همک و ما کان الخوف لک شعارا و الحزن لک دثارا ابن آدم إنک میت و مبعوث و موقوف بین یدی الله عز و جل و مسئول فأعد فاعد جوابا اولاد آدم تیرا حال تیری حالت تیری ایام اور تیرا راسته اس وقت تک اچها رهیگا جب تک تو خود اپنی نفس کو وعظ ونصیحت کرتا رهیگا کویی تیری باطن مین تجهےنصیحت کرے تیرا دل تیری عقل تیرا ضمیر تیرا ایمان تجهے نصیحت کرے دوسرن کی نصیحت مفید هے لیکن اس سے زیاده مفید یه هے که انسان خود اپنے آپ کو نصیحت کرے- اور جب تک انسان انسان اپنی محاسبه کرتےرهو گے –انسان کا اپنا محاسبه دوسرون ک محاسبےسے زیاده دقیق ھو سکتےهے اس لیے که انسان خود سے کچھ نهین چھپاسکتا –اور جب تک خوف خدا تمهارا شعار اور اور عذاب الهی کا خوف اور احتیاط تمهارا لباس رهے گا اس وقت تک تم اچهی بنیے رهو گے –یعنی خدا سےدرتے رهو اور غضب و عذاب الهی کو نظر مین رکهو اور خیال رکهو  که تم سے کویی ایسی –لغزشش نه هو  جو اس بات کا باعث بنےکه خدا تم سےغضبناک هو[3]-اگر هم ان باتون کا خیال رکهینگے یعنی خود کو وعظ و نصیحت کرتے رهینگے – خود اپنا محاسبه کرتے رهینگے اور عذاب و قهر الهی سے ڈرتے رهینگے اچهایی اور نیکی  مین رهوگے- هماری دنیا اچهی رهیگی اور آخرت بهی -  

 

[1] کلمات قصار 73

[2] تحف‏العقول ، حسن بن شعبه حرّانى‏ ص ۲۸۰ ؛ بحارالأنوار ، علامه مجلسی ج ۶۷ ص ۳۸۲ ؛

[3] خودسازی.ص 19

  • عابد حسین مقدسی

 نفس لوّامه: لَوْم: ملامت و سرزنش کے معنی میں بے اور نفس لومہ انسان کے اپنے آپ کو ملامت کرنا اس نسبت سے کہ جو برائی اس نے انجام دیا ھے اس وجہ سے اپنے آپ کو سرزنش اور ملامت کا مستحق سمجھتا ھے پس‏  نفس لوامه- یا حالت ملامتگرى و بیدارى وجدان  انسان_ اور انسان کا اپنے کئے سے آگاہ ھونا ھے که انسان سے اگر کوئی برائی سرزد ھوجایے تو اسکا اپنا وجدان؛ اسکا اپنا ضمیر اسے سرزنش کرتاھے اور اسکا وجدان اسے تنبیہ کردیتا ھے اور اس کے اپنے بارے میں فیصلہ کردیتاھے تاکہ وہ انسان اس آیہ کریمہ کا مشمول ھوجایے- أَ لَمْ أَعْهَدْ إِلَیْکُمْ یا بَنِی آدَمَ أَنْ لا تَعْبُدُوا الشَّیْطانَ اے بنی نوع انسان آیا ھم نے تم سے عہد نہیں لیاتھا کہ شیطان کی پیروی مت کرنا؟  اسی لیے کہا گیا ھے کہ یہی نفس  انسان کے اچھائی کی طرف لے جانے کا سبب بن جاتا هے_ چونکہ انسان جب بھی کوئی برائ انجام دیتا ہے یہی نفس لومہ ہی اسے سرزنژ کردیتے ھے  بشرط این کہ انسان نفس لوامہ کی آوازسن لے  اور اس پرعمل  کرے_" نفس لوامه" نفس کا ایک ایسا مرحله هے که انسان ،تعلیم وتربیت اور جدوجهد کے بعد اس مرحله پر فائز هو تا هے، کبهی کبھی انسان کی لغزشون ،کوتاهیون کے نتیجه میں بعض خلاف ورزیوں کا بھی مرتکب هو تا هے، لیکن فوراً پشیمان هو کر اپنے آپ کی سرزنش وملامت کر تا هے اور اپنے گناه کی تلافی کر نے کا فیصله کرتا هے اور اپنےدل وجان کو توبه کے پانی سے دھو لیتا هے-
قرآن مجید نفس کے اس مرحله کو " نفس لوامه " کهتے هوئے ارشاد فر ماتا هے : " اور برائیوں پر ملامت کر نے والے نفس (نفس لوامه) کی قسم کهاتا هوں که قیامت حق هے
 وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ
اور نفسِ لوامہ، بیدار اور ملامت کرنے والے وجدان کی قسم (کہ قیامت حق ہے
اہم بات یہ کہ یها پر دو چیزو کی قسم کهایی ه ایک قیامت کی دوسری نفس لوامه کی ہم یہ دیکھیں کہ ان دونوں قسموں (قیامت کے دن کی قسم اور بیداروجدان کی قسم) کے درمیان کیا راطبہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاد کے وجود کی ایک دلیل ۔ انسان کی روح کے اندر، "محکمہ وجدان" کا وجود ہے، جو نیک کام کو انجام دینے کے وقت، انسان کی روح کی خوشی اور نشاط سے پر کردیتا ہے۔، اور اس طریقہ سے اسے جزا دیتا ہے اور برے کام کے انجام دینے یا کسی جرم کا ارتقاب کرنے کے موقع پر، اس کی روح سخت دباؤ ڈال کر اسے سزا دیتا ہے اور شکنجہ میں جکڑتا ہے
ہاں! یہ عدالت وجدان اتنی عظمت و احترام کی حامل ہے کہ خدا اس کی قسم کھا رہا ہے اور اس کو عظیم شمار کر رہا ہے اور واقعاًوہ عظیم و بزرگ ہے کیونکہ وہ انسان کی نجات کا یاک اہم عامل شمار ہوتی ہے، بشرطیکہ وجدان بیدار ہو اور کثرتِ گناہ کی وجہ سے ضعیف و ناتواں نہ ہوجاۓ
"نفس لوامہ" کاردعمل اور اثر انسانوں کے وجود میں بہت ہی وسیع و عریض ہے اور ہر لحاظ سے قابلِ غور و مطالعہ ہے، اور ہم نکات کی بحث میں اس کی طرف مزید اشارہ کریں گے۔ جب "عالم صغیر" یعنی انسان کا وجود اپنے اندر ایک چھٹا سا محکمہ اور عدالت رکھتا ہے تو "عالمِ کبیر" اپنی اس عظمت کے باوجود ایک عظیم مھکمہ عدل کیوں نہ رکھتا ہوگا۔ اور یہ وہ مقام ہے جہاں سے ہم "وجدان اخلاقی" کے وجود سے "قیامت اور معاد" کے وجود کی ٹوہ لگاتے ہیں اور یہیں سے ان دونوں قسموں کا ایک عمدہ ربط واضح ہوجاتا ہے

1-مفردات الفاظ قرآن، ج‏4، ص: 174

2-آیینه حقوق

3-تفسیر نمونه

  • عابد حسین مقدسی

سلسه دروس قسط 3:تزکیه نفس. نفس اماره یا خواهشات نفسانی پر کیسے قابو کیا جاسکتا هیین؟ نفس کے مراتب قرآن کی نظر مین: ھم نے بچھلے تحریر مین نفس کی معنی ،اوراس کے مرتب مین سے نفس اماره کے بارے مین کها تها نفس اماره  انسان کو لذتوں پر ابھارتا ھے یعنی وہ انسان کو ھمیشہ اس بات پر ابھارتا ھے کہ اس کی خواھش پوری کرے نفس کا یہ مرحلہ جس کو قرآنی اصطلاح میں نفس امارہ کہا گیا ھےانسان کی سب سے بڑا دشمن قرار دیا هیں- اور جس کی مخالفت کو جهاد باالنفس اور جهاد اکبر  کها گیا هین چنانچه پیغمبر ص کا یه فرمان «عَنْ أَبِی عَبْدالله (ع): إِنَّ النَبِیَّ (ص) بَعَثَ سَرِیَةً فَلَمَّا رَجَعُوا، قَالَ مَرْحَباً بِقَومٍ قَضُوا الْجِهَادُ الْأَصْغَرِ وَ بَقِیَ عَلَیْهِم الْجِهَادُ الْأَکْبَرِ. قِیلَ یَا رَسُولَ اللهِ (ص) مَا الْجِهَادُ الْأَکْبَرِ؟ قَالَ: جِهَادُ النَّفْسّ:[1] امام صادق (ع) سی روایت هے  که  پیغمبر (ص) مسلمانون مین سے ایگ گروه کو جهاد کی لیے بهیجا.جب یه لوگ واپس پهنچے تو رسول ص نی فرمایا آفرین هو اس گروه پر جنهون نی جهاد اصغر  انجام دیا،لیکن انکیےوظیفة جهاد اکبر باقی هیں. عرض کیا : یا رسول الله جهاد اکبر کیا هین ؟آپ (ص) نے ارشاد  فرمایا ‌ جهاد با النَفْس». اسی طرح حضرت امیر المومنین علی (ع) کا بهی قول هے:‌ «المُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ: مجاهد واقعی وه هے جس نے اپنے سرکش نَفْس سے جهاد کیا»  [2]دوسری جگه پر امیر المومنین ع فرماتے هے اپنے نفس کی مخالفت کرو تاکه تم سیدهی سچی زندگی بسر کرسکو اور صاحبان علم کے ساتھ  گل مل جاو که اس طرح تم جهالت سے نجات پاوگی[3] اسی طرح پیغبر ص ایک جماعت سے گزری ان میں سے ایک آدمی بهت وزنی اور بهاری پتهر اٹھایا هوا تها اس کے بارے میں لوگ یه که رهے تهی که وه بهت وزنی پتهروں کا اتهانے  والا هے- اس کی وزن برداری دیکھ کر لوگ حیرت زده تهے. رسول (ص) ان کی قریب تشریف لے گیے اور معلوم کیا :کیا معامله هے؟ لوگون نی بتایا اے الله کے رسول (ص) ایک شخص پتهر اتهاتا هے اسے سب سے باری اور وزنی پتهر اٹهانے والاکهتا هے- آپ (ص) نے فرمایا:کیا تم یه چاهتے هو که میں اس سے زیاده طاقت ور آدمی کی خبر دون؟ وه شخص هین که جس کو دوسرا برا کهتا هے اور وه برداشت کرلیتاهے اور صبر سے کام لیتا هے ، ا.وراپنے اوپر قابو رکهتا هے  اور شیطان پر غالب آجاتا هین[4]

جاری هی

 

 

[1] (حُرّ عاملی، 1396ق.، ج11: 1 22)

[2] آینه حقوق ص 68

[3] شرح غرر ودررج3ص 426

[4] مجموعه وراج ج2 ص210

  • عابد حسین مقدسی

بسمه تعالی:

 سلسلہ درس۔تزکیہ نفس۔۔

ھم نے بچھلے تحریر مین تزکیہ ،کے بارے میں کچھ مطالب بیان کیے تھے۔ اب ا یہاں پر نفس کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتے ھے۔۔

نفس کے معنی۔ نفس لغت میں روح کے  معنی میں استعمال ھویے ھے۔راغب اصفہانی لکھتے ھے نفس کا معنی روح کے ھے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے قرآن کریم کی اس آیت کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ھے۔وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ یَعْلَمُ مَا فِی أَنْفُسِکُمْ فَاحْذَرُوهُ ۚ وَ اعْلَمُواْ أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِیمٌ(235)۔[1] یاد رکھو کہ خدا تمہارے دل کی باتیں خوب جانتا ہے لہذا اس سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ وہ غفور بھی ہے اور حلیم واِردبار بھی

نفس قرآن کی نظر میں۔ آیةالله طبرسی  نے تحریرکیا ھےنفس کی تین معنی بیان کی هین1_نفس روح کے معنی میں استعمال ھوا ھے۔۔ جیسا که گذشته آیه مین بیان کیا.

2-۔نفس ذات کے معنی میں بھی استعمال ھوا ھے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھے وَ اتَّقُواْ یَوْمًا لَّا تجَزِى نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَیْا[2] اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے

3- نفس قلب اور باطن کے معنی میں بھی اسعتمال ھوے ھے جیسا کہ قران مجید میں خالق کائنات فرماتے ھے۔۔ وَ اذْکُر رَّبَّکَ فىِ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَ خِیفَةً وَ دُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الاَصَالِ وَ لَا تَکُن مِّنَ الْغَافِلِین[3]

اوراپنے رب کو تضرع اور خوف کے ساتھ دل ہی دل میں اور دھیمی آواز میں صبح و شام یاد کیا کریں اور غافل لوگوں میں سے نہ ہوں۔

نفس کے مراتب قرآن کی نظر میں۔[4]

نفس کے چند مراتب قرآن مجید میں بیان ھوے ھیں۔1-نفس امارہ :جو کہ انسان کو لذتوں پر ابھارتا ھے یعنی وہ انسان کو ھمیشہ اس بات پر ابھارتا ھے کہ اس کی خواھش پوری کرے نفس کا یہ مرحلہ جس کو قرآنی اصطلاح میں نفس امارہ کہا گیا ھےانسان کی سب سے بڑا دشمن اور خدا کے عظیم بندوں نے اس سے پناہ طلب کی ھے۔قران کریم میں ارشاد ھوا ھے وَ مَا أُبَرِّئُ نَفْسىِ  إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةُ  بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبىّ‏ إِنَّ رَبىّ غَفُورٌ رَّحِیم[5] دوسری ایت میں ارشاد ھے وَ أَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الهْوَى‏(40)فَإِنَّ الجْنَّةَ هِىَ الْمَأْوَى[6] جو اپنے پروردگار کے مقام و مرتبہ سے ڈرااور اس نے ھوا و ھوس سےاپنے نفس کو روکے رکھاتو بھشت اسکی منزل ھے

نفس کے اس مرتبہ کے سلسلہ میں امیرالمومنین ع فرماتے ھے۔ بندہ پر فرض ھے کہ وہ اپنے نفس کو سرکشی اور بے ادبی سے روکے رکھے اور اسے با ادب و مودب بنایےاور بندے کو چاھیےکہ وہ اسکی خوھشون کو پورا نہ کرے بلکہ اسے قابو میں رکھے اگر آزاد چھوڑدے گا تو وہ اسکی تباھی میں ایسا شریک ھوگا جو نفس کی خواہشون کو پورا کرنے میں اس کی مدد کرتا ھے گویا اس نے بربادی اور ھلاکت میں اپنے نفس کے ساتھ شریک ھوا۔[7] امام صادق ع فرماتے ھے نفس کو چھوڑنے سے پہلےاسے ضرر رسانی سے روک دو اور اسکی زبان کو لگام چڑھا دو اور اسے ناجائز خوہشوں کی زنجیر  سے آزاد کرنے کیے لیےاسی طرح کوشش کرو جس طرح تم اپنا روزگار تلاش کرنے میں کوشش کرتے ھو کونکہ تمھارے عمل نفس کی وجہ سے ھے۔

abidmuqaddasi.blog.ir

 

[1] البقره 235

[2] البقره 48

[3] اعراف 205

[4] آیینه حقوق ص 67

[5] سورہ یوسف 53

[6] نازعات40/41

[7] مستدرک الوسایل ج2صفحہ270

  • عابد حسین مقدسی

بسمه تعالی

درس اول: تزکیه نفس

مقدمه:

خداند متعال کی بارگاه میں شکر ادا کرتے هیں که جس نےهمیں توفیق عطا فرمایی اور یه لطف کرم شامل حال کیا همیں پهر سے ماه مبارک رمضان نصیب هوا ماه مبارک رمضان وه مهینه هے جس کے بارے پیغمبر اسلام ص نے ارشاد فرمایا هے أیُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَیْکُمْ شَهْرُ اللَّهِ بِالْبَرَکَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ. [1] اے لوگو تمهاری طرف الله کا مهینه آرها هے جو که برکتوں کے ساتھ ،رحمتوں کے ساتھ ،مغفرت کے ساتھ ارها هے.

یه ماه تزکیه نفس خود سازی اور تهذیب نفس کا مهینه هے.لھذا چند مطالب تزکیه نفس کے عنوان سے پیش خدمت هے.

تزکیه نفس: یعنی انسان اپنے نفس کواخلاق ناپسند سے  پاک کرنا اور اخلاقی آلودگی سے محفوظ رکهنا هے اور اپنےآپ کو آراسته کرناهےفضائل اخلاقی سےجو که سبب بنتا هے کمال و سعادت واقعی دنیا اور آخرت کا.خداوند متعال نے قرآن کریم میں تزکیه نفس کی بهت زیاده تأکید فرمایا هے ، چنانچه سوره شمس میں ارشاد  فرماتا هے قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّئهَا[2] بتحقیق جس نے اپنے نفس کو پاک رکھا کامیاب ہوا. اورفساد اخلاقی کو منشأ بدبختی قرار دیا هے. وَ قَدْ خَابَ مَن دَسَّئهَا [3] اور جس نے اسے آلودہ کیا وہ خسارے میں رہا. ععبد الله ابن عاس نے رسول خدا ص سے رویت کی هےعنْ عَبْدِ اَللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ اَلنَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَ آلِهِ : مَنْ صَامَ شَهْرَ رَمَضَانَ إِیمَاناً وَ اِحْتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّرَ اگر کویی شخص ماه مبارک رضان کا روضه رکھے اپنے.کان،آنکھ، اور زبان مراقبت کے ساتھ خداوند اس کے روزے کو قبول فرماتا هے اور اس کے گناهوں کو بخش دیتا هے.[4]

عابد مقدسی.   abidmuqaddasi.blog.ir


[1] بحارالأنوار ج : 93 ص : 35

[2] الشمس ایه 9

[3] الشمس ایه 10

[4] مجلسی، محمد باقر؛ بحارالانوار، تهران، دراالکتب الاسلامیه ، 1397ه.ق، چاپ دوم، ج77، ص 88.

  • عابد حسین مقدسی