عابد حسین مقدسی

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

عابد حسین مقدسی

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

مباهلہ عظمت اہلبیت کی ایک زندہ سند

جمعه, ۲۴ مرداد ۱۳۹۹، ۰۱:۳۲ ب.ظ

 

 

مباهلہ عظمت اہلبیت کی ایک زندہ سند

ترتیب و تنظیم عابد مقدسی

فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْکَاذِبِینَ ۞پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے جگڑا کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں ۔

” مباہلہ “ در اصل ” بھل“ کے مادہ سے ہے ، اس کا معنی ہے ”رہا کرنا “ اور کسی کی قید و بندکو ختم کردینا ۔ اسی بناء پر جب کسی جانور کو اس کے حال پر چھوڑ دیں اور اس کے پستان کسی تھیلی میں نہ باندھیں تاکہ اس کا نو زائیدہ بچہ آزادی سے اس کا دودھ پی سکے تو اسے ” باھل “ کہتے ہیں ۔ دعا میں ” ابتھال“ تضرع و زاری اور کام خدا کے سپرد کرنے کے معنی میں آتا ہے ۔

کبھی کبہار یہ لفظ ہلاکت ، لعنت اورخدا سے دوری کے معنی میں اس لئے استعمال ہوتا ہے کہ بندے کو اس کے حال پر چھوڑدینا منفی نتائج کا حامل ہوتا ہے ۔ یہ تو تھا ” مباہلہ “ کا مفہوم اصل لغت کے لحاظ سے لیکن اس مروج مفہوم کے لحاظ سے جو اوپر والی آیت میں مراد لیا گیا ہے یہ دو اشخاص کے درمیان ایک دوسرے پر نفرین کرنے کو کہتے ہیں اور وہ ببھی اس طرح کہ دو گروہ جو کسی اہم مذہبی مسئلے میں اختلافَ رائے رکھتے ہوں ، ایک جگہ جمع ہو جائیں ، بار گاہ الہٰی میں تضرع کریں اور اس سے دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا و ذلیل کرے اور اسے سزا و عذاب دے ۔

دعوت مباہلہ

مندرجہ بالا آیت میں خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ ان واضح دلائل کے بعد بھی کو ئی شخص تم سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں گفتگو اور جھگڑا کرے تو اسے ” مباہلہ کی دعوت دو اور کہو کہ وہ اپنے بچو ں ، عورتوں او ر نفسوں کو لے آئے اور تم بھی اپنے بچوںاور عورتوں اور نفسوں کو بلا وٴ پھر دعا کرو تاکہ خدا جھوٹوں کو رسوا کردے ۔

” مباہلہ “ کی یہ صورت شاید قبل از این عرب میں مروج نہ تھی اور ایک ایسا راستہ ہے جو سوفیصد پیغمبر اکرم کے ایمان اور دعوت کی صداقت کا پتہ دیتا ہے ۔

کیسے ممکن ہے کہ جو کامل ارتباط کے ساتھ خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو اور ایسے میدان کی طرف آئے اور مخالفین کو دعوت دے کہ آوٴ ! اکھٹے درگاہ خدا میں چلیں ، اس سے درخواست کریں اور دعا کریں کہ وہ جھوٹے کو رسوا کردے اور پھر یہ بھی کہے کہ تم عنقریب اس کا نتیجہ دیکھ لو گے کہ خدا کس طرح جھوٹوں کو سزا دیتا ہے اور عذاب کرتا ہے ۔

یہ مسلم ہے کہ ایسے میدان کا رخ کرنا بہت خطر ناک معاملہ ہے کیونکہ اگر دعوت دینے والے کی دعا قبول نہ ہوئی اور مخالفین کو ملنے والی سزا کا اثر واضح نہ ہو اتو نتیجہ دعوت دینے والے کی رسوائی کے علاوہ کچھ نہ ہوگا ۔

کیسے ممکن ہے کہ ایک عقلمند اور سمجھ دار انسان نتیجے کے متعلق اطمنان کئے بغیر اس مرحلے میں قدم رکھے ۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی طرف سے دعوتِ مباہلہ اپنے نتائج سے قطع نظر ، آپ کی دعوت کی صداقت اور ایمان قاطع کی دلیل بھی ہے ۔

اسلامی روایات میں ہے کہ “ مباہلہ “ کی دعوت دی گئی تو نجران کے عیسائیوں کے نمائندے پیغمبر اکرم کے پاس آئے اور آپ سے مہلت چاہی تاکہ اس بارے میں سوچ بچار کرلیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگوں سے مشورہ کرلیں  ۔ بہر حال مشورے کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں کے مابین یہ طے پایا کہ اگر محمد شو ر و غل ، مجمع اور داد و فریاد کے ساتھ ” مباہلہ“ کے لئے آئیں تو ڈرا نہ جائے اور مباہلہ کرلیا جائے کیونکہ اگر اس طرح آئیں تو پھر حقیقت کچھ بھی نہیں جبھی شور وغل کا سہارا لیا جائے اور اگر وہ بہت محدود افراد کے ساتھ آئیں بہت قریبی خواص اور چھوٹے بچوں کو لے کر وعدہ گاہ میں پہنچیں تو پھر جالینا چاہئیے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور اس صورت میں ان سے ”مباہلہ “ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیئے کیونکہ اس صورت میں معاملہ خطر ناک ہے ۔

طے شدہ پروگرام کے مطابق عیسائی میدان مباہلہ میں پہنچے تو اچانک دیکھا کہ پیغمبر اپنے بیٹے حسین (علیه السلام) کو گود میںلئے حسن (علیه السلام) کا ہاتھ پکڑے اور علی (علیه السلام) و فاطمہ (علیه السلام) کو ہمراہ لئے آپہنچے ہیں اور انہیں فرمارہے ہیںکہ جب میں دعا کرو ، تم آمین کہنا ۔

عیسائیوں نے یہ کیفیت دیکھی تو انتہائی پریشان ہوئے اور مباہلہ سے رک گئے اور صلح و مصالحت کے لیے تیار ہو گئے اور اہل ذمہ کی حیثیت سے رہنے پر آمادہ ہو گئے ۔

”فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ.......“

گذشتہ آیات میں حضرت عیسیٰ کی الوہیت کی نفی پر استدلال تھا ۔ اب اس آیت میں پیغمبر اکرم کوحکم دیا گیا ہے کہ اگر اس علم و دانش کے بعد بھی جو تمہارے پاس پہنچا ہے کچھ لوگ تم سے لڑیں جھگڑیں تو انہیں مباہلہ کی دعوت دو اور اس سے کہو کہ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم بھی اپنے بیٹوں کو بلاوٴ ، ہم اپنی عورتوں کو دعوت دیتے یں تم بھی اپنی عورتوں کو بلاوٴ اور ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں تم بھی اپنے نفسوں کو دعوت دو پھر ہم مباہلہ کریں گے اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں گے ۔

بغیر کہے یہ بات واضح ہے کہ مباہلہ سے مراد یہ نہیں کہ طرفین جمع ہو ں ، ایک دوسرے پر لعنت و نفرین کریں اور پھر منتشر ہو جائیں کیونکہ یہ عمل تو نتیجہ خیز نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ دعا اور نفرین عملی طور پر اپنا اثر ظاہر کرے اور جو جھوٹا ہو فوراً عذا ب میں مبتلا ہو جائے ۔

شیعہ اور سنی مفسرین اور محدثین نے تصریح کی ہے کہ ” اٰیہٴ مباہلہ ٴ اہل بیتِ رسول کی شان میں نازل ہوئی ہے اور رسول (صلی الله علیه و آله وسلم) جن افراد کو اپنے ہمراہ وعدہ گاہ کی طرف لے گئے تھے وہ صرف ان کے بیٹے امام حسن(علیه السلام) اور امام حسین (علیه السلام)، ان کی بیٹی فاطمہ زہرا (علیه السلام) اور حضرت علی علیہ السلام تھے ، اس بناء پر آیت میں ” ابنائنا “ سے مراد صرف امام حسن (علیه السلام) اور حسین (علیه السلام) ہیں ۔ ” نسائنا “ سے مراد جناب فاطمہ (علیه السلام) ہیں اور ” انفسنا “ سےمراد صرف حضرت علی علیہ السلام ہیں ۔۔

شیعہ مفسرین ، محدثین اور موٴرخین سب کے سب اس آیت کے ”اہل بیت “کی شان میں نازل ہونے پر متفق ہیں چنانچہ ” نور الثقلین“ میں اس سلسلے میں بہت سے روایات نقل کی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک کتاب ” عیون اخبار الرضا “ ہے ، اس میں ایک مجلسِ منا ظرہ کا حال بیان کیا گیا ہے ۔ جو مامون نے اپنے دربار میں منعقد کی تھی ۔ اس میں ہے کہ امام علی(علیه السلام) بن موسیٰ رضا (علیه السلام) نے فرمایا :۔خدا نے اپنے پاک بندوں کو آیت مباہلہ میں مشخص کردیا ہے اور اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے :

 (” فمن حاجّک فیہ من بعد ماجاء ک من العلم فقل “)

اس آیت کے نزول کے بعد پیغمبر علی (علیه السلام) ، فاطمہ (علیه السلام)، حسن (علیه السلام) اور حسین (علیه السلام) کو اپنے ساتھ مباہلہ کے لئے لے گئے اور یہ ایسے خصوصیت اور اعزاز ہے کہ جس میں کوئی شخص اہل بیت (علیه السلام) پر سبقت حاصل نہیں کرسکا اور یہ ایسی منزلت ہے جہاں تک کوئی شخصبھی نہیں پہنچ سکا او ریہ ایسا شرف ہے جو اس سے پہلے کو ئی حاصل نہیں کرسکا ۔ 

تفسیر ”برہان “، ” بحار الانوار“ اور تفسیر ” عیاشی “ میں بھی اس مضمون کی بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جو تمام اس امر کی حکایت کرتی ہیں کہ مندرجہ بالا آیت ” اہل بیت “ کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔

روز مباھلہ جب مسیحیوں نے دیکھا کہ پیغمبر اسلام (ص) امام حسین علیہ السلام کو اپنے گود میں لئے اور امام حسن علیہ السلام کے انگلی پکڑ کے اور حضرت علی علیه السلام اور حضرت فاطمه سلام الله علیها کے ساتھ آرھے ھیں تو اسقف مسیحی کہنے لگا میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا سے طلب کرے تو پہاڑ اپنے جگہ سے ہل جائے. اگر ان افراد نے نفرین کی تو کوئی بھی مسیحی زمین پر باقی نہیں ریگا لہذا مباہلہ سے منصرف هوجاو اور ان سے مصالحت کردو اور انکے بات مان لیں_

 اس آیہ مبارکہ میں چند نکات مھم کی طرف متوجہ فرمایا ھے

1-دعا مین کیفیت اور اھل دعا کی حالات مھم ھے مباھلہ میں پنجتن پاک تشریف لائے أَبْنَاءَنَا_وَنِسَاءَنَا_ وَأَنفُسَنَا 

2_اھل بیت پیامبر (س) مستجاب الدعوہ ہیں أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا وَأَنفُسَنَا 

3_حضرت علی علیه السلام نفس رسول (ص) معرفی هے (انفسنا) 

4_ امام حسن و امام حسین علیہمالسلام فرزندان رسول خدا (ص)  ھیں. (ابنائنا) 

اس کے علاوہ تفسیر کشاف کے موٴلف اہل سنت کے بزرگوں میں سے ہیں ۔ وہ اس آیت کے ذیل میں کہتے ہیں ۔

” یہ آیت اہل کساء کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لئے قوی ترین دلیل ہے “

قاضی نو ر اللہ شوستری اپنی کتاب ِ نفیس ” احقاق الحق “ کی جلد سوم طبع جدید صفحہ ۴۶ پر لکھتے ہیں :

” مفسرین اس سلسلے میں متفق ہیں کہ ” ابنائنا“ سے اس آیت میں امام حسن (علیه السلام) اور امام حسین (علیه السلام) مراد ہیں ، ” نسائنا“ سے ” حضرت فاطمہ (علیه السلام) مراد ہیں اور ’ ’ انفسنا“ میں حضرت علی (علیه السلام) کی طرف اشارہ کیا گیا ہے

اس کے بعد کتاب مذکور کے حاشیہ پر تقریباًساٹھ بزرگان اہل سنت کی فہرست دی گئی ہے جنہوں نے تصریح کی ہے کہ آیت مباہلہ اہل بیت ِ رسول کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ ان کے نام اور ان کی کتب کی خصوصیات صفحہ ۴۶ سے لے کر صفحہ ۷۶ تک تفصیل سے بیان کی گئی ہے ان شخصیتوں میں سے یہ زیادہ مشہور ہیں ۔

۱۔ مسلم بن حجاج نیشاپوری ۔ موٴلف صحیح مسلم جو نامور شخصیت ہیں اور ان کی حدیث کی کتاب اہل سنت کی چھ قابل اعتماد صحاح میں سے ہے ملاحظہ ہو مسلم ، ج۷، ص ۱۲۰۔ طبع مصر زیر اہتمام محمد علی صبیح۔

۲۔ احمد بن حنبل نے اپنی ” مسند“ میں لکھا ہے ملاحظہ ہو جلد۱، صفحہ ۱۸۵ طبع مصر ۔

۳۔ طبری نے اپنی مشہور تفسیر میں اسی آیت کے ضمن میں لکھا ہے دیکھئے جلد ۳، ص ۱۹۲، طبع میمنیہ۔ مصر ۔

۴۔ حاکم نے اپنی” مستدرک “ میں لکھا ہے ، دیکھئے جلد ۳ ، ص ۱۵مطبوعہ حیدر آباد دکن ۔

۵۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی “ ،کتاب ” دلائل النبوة“ ص ۲۹۷، مطبوعہحیدر آباد دکن ۔

۶۔ واحدی نیشاپوری “ ، کتاب ” اسباب النزول “ ،ص ۷۴،طبع ہندیہ ۔

۷۔ فخر رازی “ نے اپنے مشہور تفسیر کبیر میں لکھا ہے ، دیکھئے جلد ۸ ، ص ۸۵، طبع بہیہ ، مصر۔

۸۔ ابن ایثر ، ” جامع الاصول “ ، جلد ۹، ص ۴۷۰ ، طبع سنة المحدیہ ، مصر۔

۹۔ ابن جوزی ” تذکرة الخواص“ ، صفحہ ۱۷، طبع نجف ۔

۱۰۔ قاضی بیضاوی ، نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے ، ملاحظہ کریں جلد۲ م ص ۲۲ طبع مصطفیٰ محمد ، مصر ۔

۱۱۔ آلوسی نے تفسیر ” روح المعانی “ میں لکھا ہے دیکھئے جلد سوم، ص۱۶۷، مطبوعہ منیر یہ ۔ مصر۔

۱۲۔ معروف مفسر طنطاوی نے اپنی تفسیر ” الجواہر “ میں لکھا ہے، جلد ۲، ص۱۲۰۔ مطبوعہ مصطفیٰ البابی الحلبی، مصر۔

۱۳۔ زمخشری نے تفسیر ” کشاف“ میں لکھا ہے ، دیکھئے جلد۱ ، ص ۱۹۳، مطبوعہ مصطفیٰ محمد ، مصر۔

۱۴۔ حافظ احمد ابن حجر عسقلانی “، الاصابة“، جلد ۲ ، ص ۵۰۳، مطبوعہ مصطفی محمد ، مصر۔

۱۵۔ ابن صباغ، فصول المہمّہ“، ص۱۰۸، مطبوعہ نجف ۔

۱۶۔ علامہ قر طبی، ’ الجامع الاحکام القرآن“ ،جلد ۳، ص ۱۰۴، مطبعہ مصر ۱۹۳۶۔

” غایة المرام “ میں ” صحیح مسلم “ کے حوالے سے لکھا ہے :۔

منبع: تفسیر نمونه/ تفسیر نور 

abidmuqaddasi.blog.ir

 

  • عابد حسین مقدسی

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی