عابد حسین مقدسی

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

عابد حسین مقدسی

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

 

سلسله دررس تزکیه نفس

نفس مطمینه :الطُّمَأْنِینَة- [طمن‏]: آرامی اور اطمینان، یا آسودگى. کے معنی میں ہے اور حقیقت میں  اضطراب اور پریشانی کے بعد سکون حاصل هونے کے معنی میں ہے پس طمأنینه اضطراب کے رفع هونے اور حالت سکون کے مستقر هونے کے معنی میں ہےچاهے مادی طور پر هو یا معنوی طورپر هو.[1] اور نفس کا ایک رخ اطمینان بهی ہے یه نفس کا بلند ترین رخ ہے کتنی اچهی بات ہے که قرآن کریم سوره فجر مین خداوند عالم براه راست ان نفوس کودعوت دے رها هے اور  بلا رها ہے جو ایمان کی روشنی مین اطمینان کے درجه پر پهنچ گیے ہے­۔ یه ایسی دعوت ہے جس مین طرفین کی رضا بے [2] چنانچه پروردگار عالم قرآن محید مین ارشاد فرماتاہے

 (27)یَا أَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ(28) ارْجِعِی إِلَى رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً

(29) فَادْخُلِی فِی عِبَادِی(30) وَادْخُلِی جَنَّتِی تر جمہ۔ تو اے سکون و اطمینان یافتہ نفس ۔۔ اپنے پروردگار کی طرف پلٹ جا ، اس حالت میں کہ تو بھی اس سے راضی ہے اور وہ بھی تجھ سے راضی ہے ۔

۔ اور میرے بندوں کی صف میں داخل ہو جا ۔ ۳۰ ۔ اور میری جنت میں واردہو جا ۔

▲اے صاحب نفس مطمئنہ!

ان آیات سے پهلے خداوند قیامت کے اس وحشتناک عذاب کے تذکره فرماتے هےجوکه سر کشوں اور دنیا پرستوں پر قیامت میں نازل ہوگا ، زیر بحث آیات میں ا سکے بر عکس ، جو صورتِ حال ہے اس کو پیش کرتاہے ، اب نفس مطمئنہ اور ان مومنین کی طرف جو ان عظیم طوفانوں میں مکمل سکون و اطمینا ن سے بہرہ وررہے ،  انہیں نہایت لطف و محبت سے مخاطب کرتے ہوئے فرماتاہے :

” اے نفس مطمئنہ!“ ( یا ایھا النفس المطمئنة) ۔ اپنے پروردگارکی طرف پلٹ آ، اس حالت میں کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے“۔(ارجعی الیٰ ربک راضیة مرضیة)۔” اور میرے بندوں کی صف میں داخل ہوجا “۔ ( فادخلی فی عبادی) ۔ ” اور میری جنت میں داخل ہوجا “۔(وادخلی جنتی )۔ کیاہی پرکشش، دل خوش کن اور روح پرور تعبیر یں ہیں ، جن سے لطف وصفا اور اطمینان کی خوشبو آتی ہے ۔پروردگار کی دعوت مستقیم ایسے نفوس کے لئے ، جو ایمان کے سائے میں اطمینان و سکون کی حالت میں پہنچے ہوئے ہیں ، انہیں اپنے پروردگار ، اپنے مالک ومربی اور مصلح کی طر ف باز گشت کی دعوت دیتا ہے ، ایسی دعوت جو طرفین کی رضا مندی لئے ہوئے ، دلدادہ عاشق کی رضامندی معشوق کے لئے اور محبوب ومعبودحقیقی کی رضامندی ۔ اس کے بعد افتخارِ عبودیت کا تاج ا س کے سر پر رکھنا اور لباس زندگی سے اسے مفتخر کرنا اور اپنے خاصانِ بارگاہ کی مسلک میں انہیں جگہ دینا ۔

اس کے بعد انہیں جنت میں ورود کی دعوت دینا اور وہ بھی ” میری جنت میں داخل ہو جا“ کی تعبیر کے ساتھ جو بتاتی ہے کہ اس مہمان کامیز بان صرف اور صرف خدا کی ذات پاک ہے ۔

نفس سے مراد وہی انسان ہے اور مطمئنہ کی تعبیر اس سکون و اطمینان کی طرف اشارہ ہے جو ایمان کے پر تو کے سائے میں پیدا ہوا ہے ، جیسا کہ قرآن کہتا ہے :( الابذکر اللہ تطمئن القلوب) ” جان لو کہ صرف اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے “۔ ( رعد۔ ۲۸) اس قسم کا نفس اللہ کے وعدوں پر بھی اطمینان رکھتا ہے اور جو راہ اس نے اختیار کی ہے اس پر بھی مطمئن ہوتا ہے ۔ دنیا اس کی طرف بڑھے ، تب بھی اور اس سے منہ موڑے تب بھی ، طوفان میں بھی اور حوادث و بلا میں بھی ،اور سب سے بالاتر خوف و وحشت اور قیامت کے عظیم اضطراب میں بھی۔، ا سکے ثوروردگار کی طرف باز گشت سے مراد ، مفسرین کی ایک جماعت کے نظریہ کے مطابق ، ا سکے ثواب و رحمت کی طرف باز گشت ہے ، یعنی اس کے جوار قرب میں جگہ پانا، معنوی و روحانی باز گشت ہے۔

یهان راضیہ کی تعبیر اس بناء پر ہے کہ ثواب ِ خدا وندی کے تمام وعدوں کو ، اس سے زیادہ کہ جتنا وہ تصور کرسکتا تھا ، وہ حقیقی طور پر دیکھے گا اور اس طرح خدا کا فضل و کرم اس کے شامل حال ہوگا کہ وہ جسم رضا بن جائے گا ۔ باقی رہا مرضیہ کی تعبیر تو وہ اس بناپر ہے کہ وہ مورد ِ قبول و رضائے دوست واقع ہوا ہے ۔اس قسم کا بندہ اس طرح کے اوصاف کے ساتھ اور مکمل رضا و تسلیم کے مقام پرپہنچنے کے ساتھ ، جس نے عبودیت کی اس حقیقت کو جو معبود کی راہ میں ہر چیز کو چھوڑ دینا ہے ، پالیا ہے اور اس نے خدا کے بندگان ِ خاص کے دائرہ میں قدم رکھا ہے ۔ یقینا ا س کے لئے جنت کے علاوہ کوئی دوسری جگہ نہیں ہے  ۔[3]

پروردگارا ! اس مقام تک پہنچنا تیرے لطف و کرم کے بغیر ممکن نہیں ہے ہمیں اپنے لطف و کرم سے نواز ۔خدا وندا ! یقینا کوئی چیز تیرے کرم سے کم نہیں ہوگی ، اگر ہمیں صاحبان ِ نفوس ِ مطمئنہ میں سے قرار دے ہم پر احسان و کرم فرما۔بار الہٰا! ہم جانتے ہیں کہ یہ سکون و اطمنان تیرے ذکر کے سائے کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ تو ہمیں اپنے ذکر کی خود توفیق عطا فرما۔   

  آمین یا رب العالمین

 

 

 

[1] تحقیق فى کلمات القرآن الکریم، ج‏7، ص: 123

[2] آینه حقوق ص 73

[3] اتفسیر نمونه