عابد حسین مقدسی

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

عابد حسین مقدسی

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایة أمیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیه السلام

۳ مطلب در آذر ۱۳۹۹ ثبت شده است

یَا وَیْلَتَى لَیْتَنِی لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیلًا ۞ لَّقَدْ أَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِی وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا ۞ہائے افسوس-کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا ۔ اس نے تو ذکر کے آنے کے بعد مجھے گمراہ کردیا اور شیطان تو انسان کا رسوا کرنے والا ہے ہی ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کی سیرت اور شخصیت کی تعمیری عوامل میں اس کے اپنے ارادے منشا اور خواہش کے بعد اور بھی بہت سے مختلف امور شامل ہوتے ہیں جن میں سب سے زیادہ اہم موٴثر عامل اس کا دوست اور ہم نشین ہوتا ہے کیونکہ انسان چار و ناچار اس کا اثر ضرور قبول کرتا ہے نیز اپنے اکثر و بیشتر افکار اور اخلاقی صفات اپنے دوستوں اورہم نشینوں سے حاصل کرتا ہے۔

خداوند متعال قرآن کریم فرماتا ہے کہ قیامت کے روز یہ ظالم لوگ بڑے افسوس کے ساتھ کہیں گے :”وای ہو مجھ پر کاش کہ میں فلاں گمراہ شخص کو اپنا دوست نہ بنا یا ہوتا( یَاوَیْلَتِی لَیْتَنِی لَمْ اٴَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیلًا)

ظاہر ہے کہ ”فلاں“ سے مراد وہ شخص ہے جو اسے گمراہی کی طرف کھینچ لایا تھا خواہ وہ شیطان تھا یا برا دوست اور گمراہ رشتہ دار وغیرہ...

در حقیقت یہ آیت اور اس سے پہلے والی آیت نفی اور اثبات کی دو مختلف حالتیں بیان کررہی ہیں ایک جگہ کہتا ہے اے کاش ! میں نے پیغمبر کا رستہ اختیار کیا ہوتا اور دوسری جگہ کہتا ہے : اے کاش ! میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنا یا ہوتا ۔

سلسلہ کلام جاری ہے آگے فرماتا ہے کہ وہ کہے گا : بیداری اور علم و آگہی میرے پاس آچکی تھی (سعادت اور خوش بختی نے میرا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا )لیکن اس بے ایمان دوست نے مجھے گمراہ کیا( لَقَدْ اٴَضَلَّنِی عَنْ الذِّکْرِ بَعْدَ إِذْ جَائَنِی )۔

اگر ایمان اور سعادت ابدی سے زیادہ دور ہوتا پھر تو افسوس کی کوئی ایسی بات ہی نہیں تھی لیکن میں اس سعادت ِ جاودانی کی سر حد کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا صرف ایک قدم کا فاصلہ باقی تھا کہ اس ہٹ دھرم متعصب اور دل کے اندھے شخص نے مجھے چشمہ ٴ آبِ حیات کے کنارے سے پیا سا پلٹا کر بد بختی اور گمراہی کے دلدل میں ہمیشہ کے لئے پھنسا دیا۔

مندر جہ بالا جملے میں مذکورہ لفظ ” ذکر“ کے وسیع معنی ہیں اور آسمانی کتابوں کی تمام آیات خدا وندی اس کے مفہوم میں شامل ہیں بلکہ وہ ہر چیز جو انسان کی بیداری اور آگہی کا سبب بنتی ہے اس میں آجاتی ہے ۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے :شیطان تو انسان کو ہمیشہ سے چھوڑتا رہا ہے (وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا)۔

کیونکہ وہ انسان کو کھینچ تان کر غلط راستے پرڈال دیتا ہے اور خطرناک مقام پر پہنچا کر اسے حیران و سر گرداں چھوڑ کر اپنی راہ لیتا ہے ۔

توجہ رہے کہ ”خذول“ مبالغہ کا صیغہ ہے جس کا معنیٰ ہے بار بار چھوڑ نے والا۔” خذلان“ کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کی امداد کے لئے عہد کرے لیکن نہایت ہی حساس لمحات میں اس کی امداد ست ہاتھ اٹھالے ۔

آیا اس آیت کا یہ آخری جملہ ” وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولاً“ قول خدا وندی ہے جو کہ تمام ظالموں اور گمراہوں کو تنبیہ کی صورت میں بیان ہوا ہے یا بروزِ قیامت ان حسرت زدہ لوگوں کے قول کا ایک حصہ ہے جو تتمّہ کے طور پر بیان ہوا ہے۔

اسلامی نقطہ نظر سے دوستی کے اثر کی اہمیت تو اس حد تک ہے کہ اسلامی روایات میں خداکے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام سے یوں منقول ہے :

لاتحکمواعلی رجل بشیء حتی تنظروا الیٰ من یصاحب ، فانما یعرف الرجل باشکالہ و اقرانہ و ینسب الیٰ اصحابہ و اخدانہ

جب تک کسی انسان کے دوستوں کو صحیح طرح نہ دیکھ لو تو اس وقت تک اس کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کرو کیونکہ انسان اپنے دوست و احباب اور یار و انصار سے پہچانا جاتا ہے (1) ۔

امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کا ایک فصیح و بلیغ ارشاد ہے :۔

و من اشتبہ علیکم امرہ ولم تعرفوا دینہ ، فانظروا الیٰ خلطائہ فان کانوا اھل دین اللہ فھو علی دین اللہ ، و ان کا نوا علی غیر اللہ فلاحظ لہ من دین اللہ۔

جب کسی شخص کی کیفیت اور حقیقت ِ حال کو نہ پہچان سکو اور اس کے دین کے متعلق بھی تمھیں معلوم نہ ہو سکے تو اس کے دوست و احباب کو دیکھ لیا کرو و اگر وہ ٓخدا کے دین کے پابند ہیں تو وہ بھی دین الہٰی کا پیروکار ہو گا اور اگر وہ اہل دین نہیں ہیں تو اس کا بھی دین میں کوئی حصہ نہیں ہے (2) ۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ بسا اوقات کسی شخص کی نیک بختی یا بد بختی کے لئے اسکے دوست کید وستی سب عوامل سے موثر عامل ہوتی ہے یا تو یہ دوستی اسے فنا کی سر حدوں تک لے جاتی ہے اوریا پھر اعزاز ا فتخار کی بلندیوں تک جا پہنچاتی ہے ۔

مذکورہ بالا آیت اور ان کی شانِ نزول سے صاف ظاہر ہے کہ انسان سعادت اور خوش بختی کی بلندیوں کو چھو سکتاہے لیکن ایک دوست کی طرف سے صرف ایک شیطانی وسوسہ کی طرح اسے ہلاکت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈال دیتا ہے کہ جس پر وہ حسرت کریگا اور بروز قیامت اپنے ہاتھوں کو اپنے دانتوں سے کاٹے گا اور ” یا ویلتی “ کی فریادیں بلندکرے گا ۔

چنانچہ حضرت محمد تقی جواد علیہ السلام فرماتے ہیں :۔

ایاک و مصاحبة الشریر فانہ کالسیف المسلول یحسن منظرہ ویقبح اثرہ

برے شخص کی ہم نشینی سے بچو کیونکہ وہ شمشیر بر ہنہ کی مانند ہوتا ہے جس کا ظاہر خوبصورت اور اثر بہت خطر ناک ہو تا ہے (3) ۔

 

پیامبر اکرم فرماتے ہیں :

اربع یمتن القلب :الذنب بالدنب ومجالسة الموتی، وقیل لہ یا رسول اللہ و ما الموتی؟ قال کل غنی مترف

چار چیزریں انسانی دل کو مردہ کردیتی ہیں ،گناہ کاتکرار (یہاں تک کہ فرمایا ) مردوں کے ساتھ ہم نشینی ،کسی نے پوچھا حضور!وہ مردے کون ہیں ؟فرمایا وہ دولتمند جو اپنی دولت کے نشے میں مست ہوتے ہیں(4) ۔

1 ۔ سفینة البحار جلد ۲ ص ۲۷ (مادہ”صدق“)۔

2۔ بحار الانوار جلد ۷۴ ص ۱۹۷۔

3 ۔ بحار الانوار جلد ۷۴ ص ۱۹۸۔

4 ۔ فصال صدوق ( منقول از بحار الانوار جلد ۷۴ ص ۱۹۵)۔

  • عابد حسین مقدسی

 بہتر زندگی کیلئے پانچ اُصول 

 

مولائے متقیان حضرت علیؑ بن ابیطالبؑ ارشاد فرماتے ہیں:

یاکُمَیْلُ! قُلِ الْحَقَّ عَلى کُلِّ حال وَ وادِّ الْمُتَّقینَ وَ اهْجُرِ الْفاسِقینَ وَ جانِبِ الْمُنافِقینَ وَ لا تُصاحِبِ الْخائِنینَ۔

 

🔷 اے کمیل! کسی بھی حال میں حق بولنے سے گریز نہ کرو، پرہیزگار لوگوں سے دوستی رکھو، فاسقوں اور گنہگاروں سے دُور رہو، منافقین کے مکر و فریب سے ڈرتے رہو اور خیانت کرنے والوں سےدوستی نہ کرو۔

 

 تــشــــــریــــــح

👈 پہلا اُصول: ساری زندگی حق کا ساتھ دو؛ خواہ مصیبت کے حالات ہوں یا راحتی کے، چاہے تخت نشین ہو یا خاک نشین زندگی کے تمام لمحات میں حق بات کہو اور حق بات سنو۔

 

👈 دوسرا اُصول: پرہیزگاروں کے ساتھ دوستی رکھو کیونکہ متقی و پرہیزگار لوگ اللہ کی رضا کے لئے تم سے دوستی رکھیں گے اور زندگی کے مشکل حالات میں کبھی تمہیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ ان کی دوستی کا فائدہ یہ ہے کہ یہ تمہیں گناہ کرنے سے روکیں گے۔

 

👈 تیسرا اصول: گناہگاروں سے دوستی نہ کرو کیونکہ وہ تمہیں اور تمہارے خاندان کو گناہ سے آلودہ کر دیں گے اس لئے اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لئے گنہگاروں سے دوستی نہ کرو۔

 

👈 چوتھا اصول: حضرت علیؑ نے فاسقین سے دوری اختیار کرنے کا حکم دیا اور منافقین سے ہوشیار رہنے کے لئے کہا ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ منافقین ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں انہیں معاشرے سے جدا کرنا مشکل ہے لہذا ان کے مکر و فریب اور حیلے سے ہوشیار رہنا چاہیے۔

 

👈 پانچواں اصول: خیانت کرنے والا شخص دوستی اور رفاقت کے لائق نہیں ہوتا۔

 

🔘 اگر اس کلام میں دقّت کی جائے اور اسے عملی جامہ پہنایا جائے تو معاشرے میں بہت سی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔

 

📚 بحارالأنوار، ج 74، ص 413۔

  • عابد حسین مقدسی

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل جیسے نعمت سے نوازاھے. 

جس کے زریعے انسان اچھائی اور برائی کے درمیان پہچان کرسکتے ھے. اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں انسانوں  کو تعقل.(عقل سے کام لینے) تفکر اور تدبر سے کام لینے کی تاکید فرمائے ھےـ چنانچہ سورہ محمد آیہ نمبر 24 میں ارشاد ھوا ھے. أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ۞

  تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے ہیں یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں

” تدبر عربی میں دبر کے مادہ سے ہے جس کامعنی ہے ،کسِی چیزکے نتائج اورانجام پر غو ر کرنا ، یہ ” تفکر “کے برعکس ہے ، جس کا زیادہ تر اطلاق کسِی چیز کے اسباب اور وجوہات پر غور کرنے پر ہوتا ہے ،قرآن مجید میں ان دونوں کلموں کا استعمال نہایت ہی معنی خیز ہے ۔

نیزاس بات کوفراموش نہیں کرناچا ہیئے کہ قرآن مجید سے استفادہ کے لیے ایک قسم کی خود سازی کی ضرورت ہوتی ہے ،قرآن مجید خو د بھی اس قسم کی خود سازی کے لیے معاون ثابت ہوتا ہے ،کیونکہ اگردلوں پرہوا و ہوس ، تکبراور غرور ،ہٹ دھرمی اورتعصب کے تالے لگے ہُوئے ہوں تو یہ رکاوٹیں نورِ حق کوان میں داخل ہونے سے روک دیتی ہیں اور زیر ِ تفسیر آیات میں بھی اس تفسیر کی طرف اشارہ کیاگیا ہے ،

 کیا ہی زیبا فرمان ہے امیرالمومنین علی علیہ السلام کاجوایک خطبے کے ضمن میں متقین کے بارے میں ہے :

” اما اللیل فصا فون اقدامھم،تالین لاجزاء القراٰن،یرتلم نھاترتیلا،یحز نون بہ انفسھم ، ویستشیرون بہ دواء دائھم ، فاذ امرو ا باٰ یة فیھا تشویق رکنو ا الیھا طمعاً ، و تطلعت نفوسھما الیھا شوقاً ، وظنوا انھانصب اعینھموواذامرو باٰ یة فیھا تخویف اصغوا الیھا مسامع قلوبھم،و ظنوا ان زفیر جھنم وشھیقھا فی اصول اٰذ انھم “۔

وہ رات کے وقت قیام کرتے ہیں ،قرآن کی ٹھہرٹھہر کراورسوچ سمجھ کرتلاوت کرتے ہیں اپنے آپ کواس کے ذریعے پرسُوز کرتے ہیں ، اپنے درد کی دوا اسی میں تلاش کرتے ہیں ، جب کسی ایسی آیت پر پہنچتے ہیں جس میں شوق دلایاگیا ہے تووہ بڑے اشتیاق کے ساتھ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں، دل کی آنکھیں بڑے شوق کے ساتھ اورخُوب عذر سے اسے دیکھتی ہیں اورہمیشہ اسے اپنانصب العلین قرار دیتے ہیں اوراگر کسی آیت پر پہنچتے ہیں جس میں ڈرایا گیا ہے تو دل کے کان کھول کر اسے سنتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ جلا ڈالنے والی دوزخ کی آگ کی چیخ و پکار اوراس کے شعلوں کی لپٹیوں کی آواز ان کے دل کے کانوں میں گونج رہی ہے

۔نہج البلاغہ خُطبہ ۱۹۳ ، معروف بہ خُطبہ ہمام ۔

تفسیر نمونہ سورہ محمد آیه 24

  • عابد حسین مقدسی